ہندوستان کی جمہوریت کیسے مضبوط ہو؟

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

دنیا کے کن کن ممالک میں کیسی کیسی جمہوریت ہے، اس کا سروے ہر سال بلومبرگ نامی تنظیم کرتی ہے۔ اس سال اس کا اندازہ ہے کہ دنیا کے 167 ممالک میں سے صرف 21ممالک کو آپ جمہوری کہہ سکتے ہیں۔56ممالک اپنے آپ کو جمہوری کہتے ہیں لیکن وہ لنگڑی جمہوریت ہیں۔ یعنی دنیا کے اکثر ممالک یا تو تاناشاہی میں جی رہے ہیں یا فوج شاہی یا پارٹی شاہی میں یا پریوار شاہی یا راج شاہی میں! ان ممالک میں عام لوگوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں۔ نہ حکومت، نہ عدالت اور نہ ہی پارلیمنٹ! یہ اطمینان کا باعث ہے کہ ہندوستان میں جب بھی شہریوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں تو حکومتیں، پارلیمنٹ اور عدالتیں ان کا نوٹس لیے بغیر نہیں رہتیں۔ ہندوستان کو اس بات پر فخر ہے کہ آج تک اس میں فوجی تختہ پلٹ کی کوئی کوشش تک نہیں ہوئی جبکہ ہمارے پڑوسی ممالک میں کئی تختہ پلٹ ہوچکے ہیں۔ ان ممالک کے آئین بھی کئی بار مکمل طور پر تبدیل ہوچکے ہیں لیکن ہندوستان کا آئین اب تک جوں کا توں ہے۔ ہندوستان کے مرکز اور ریاستوں میں اکثر حکومتیں بدلتی رہتی ہیں۔ لیکن ایسا بُلٹ سے نہیں، بیلٹ سے ہوتا ہے۔ اس کے باوجود دنیا کے167ممالک کی فہرست میں ہندوستان کا مقام46واںکیوں ہے؟ وہ پہلا کیوں نہیں ہے؟ جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، وہ سب سے بہترین بھی کیوں نہیں ہے؟ فہرست میں سرفہرست رہنے والے دس ممالک ہندوستان کے اوسط صوبوں سے بھی چھوٹے ہیں جیسے ناروے، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، سویڈن، آئرلینڈ، تائیوان وغیرہ! ہندوستان اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ چین، جو کہ آبادی میں اس سے بھی بڑا ہے، وہ بدترین جمہوریتوں میں پانچویں نمبر پر ہے۔ اس کے پہلے چار سیڑھیوں نیچے بیٹھے ہیں-افغانستان، میانمار، شمالی کوریا اور لاؤس۔ پاکستان اپنے دوست چین سے دو سیڑھی اوپر بیٹھا ہے! ان قوموں میں یا تو آمریت کا ڈنکا پٹ رہا ہے یا فوج کا!کسی ملک میں جمہوریت ہے یا نہیں اور کم ہے یا زیادہ ہے، اس کی پیمائش کے لیے پانچ معیار ہیں۔ ایک، انتخابی عمل، دو سرا سرکاری کام کاج، تیسرا سیاسی شراکت داری، چار سیاسی اور ثقافتی آزادی اور پانچ، شہری حقوق! ان تمام بنیادوں کا جائزہ لینے پر پتہ چلا ہے کہ امریکہ جیسی خوشحال قوم 26ویں مقام پر ہے، ہندوستان 46 ویں پر اور پاکستان 104ویں نمبر پر ہے۔ ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی انتخابات تو ہوتے ہیں لیکن وہاں بھی افریقی ممالک کی طرح فوج کا مقام سب سے اوپر ہے۔ فوج پاکستان کی مستقل ملکہ ہے۔ پوری دنیا کی کل آبادی میں صرف6.4فیصد عوام ہی صحت مند جمہوریتوں میں رہتے ہیں۔
دوسرے ممالک کے حالات جیسے بھی ہوں، ہم ہندوستانیوں کو اس تلاش میں لگ جانا چاہیے کہ ہماری جمہوریت میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں؟ سب سے پہلی رکاوٹ تو یہی ہے کہ تمام پارٹیاں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں۔ ان میں داخلی آزادی صفر ہوگئی ہے۔ دوسری، ہمارے یہاں ووٹنگ کی بنیاد اکثر مذہب یا ذات بن چکی ہے۔ تیسری، عوامی نمائندوں کو واپس بلانے کا حق عوام کو نہیں ہے۔ چوتھی،ملک کی حکومت، انتظامیہ، قانون اور انصاف سب کچھ آج بھی پرانے مالک انگریزوں کی زبان میں ہی چل رہا ہے۔ پانچواں، ہمارے لیڈروں کا ’برہم ستیہ‘ ستّا(اقتدار) اور پتّا(پیسہ) ہے۔ عوامی فلاح تو فریب ہے۔ اسے بیوروکریٹس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ چھٹا، ملک کے بیشتر لوگوں کے لیے ابھی تک تعلیم، ادویات اور خوراک کا مناسب انتظام نہیں ہوا ہے۔ ان سوالات کا جواب کوئی تلاش کرے تو ملک میں سچی جمہوریت لانے میں دیر نہیں لگے گی۔
(مضمون نگار ممتاز صحافی، سیاسی تجزیہ کاراور
افغان امور کے ماہر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS