لتا منگیشکر : موسیقی کے ایک دور کا خاتمہ

0

فیروز بخت احمد

لتا منگیشکر کی زندگی میں ہی ان پر دنیا کی 72مختلف زبانوں میں لکھا گیا اور کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ انہوں نے دہلوی برادران، یونس دہلوی، ادریس دہلوی اور الیاس دہلوی کے ماہنامہ ’’شمع‘‘ (ستمبر 1967)میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ بلاشبہ انہوں نے تیس مختلف زبانوں میں گیتوں کو اپنی آواز دی ہے مگر جو بلند و بالا وقار ان کے وجود میں اردو کا رہا ہے، اس کا اپنا مزہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مراٹھی ایک طرح سے ان کی مادری زبان کی طرح تھی، مگر جس طرح سے اردو کو مولوی عبدالصمد اور پھر بعد میں دلیپ کمار سے سیکھا، وہ ان کے دل کی زبان بن گئی۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دیگر زبانوں کے تعلق سے ان کی سوچ کچھ مختلف ہے، کیونکہ ہر زبان کو انہوں نے تمام زندگی وہی اہمیت دی جو اردو کو دی۔ اردو کے علاوہ انہیں بنگالی پر بھی دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے ممبئی آکر نہ صرف مراٹھی سیکھی بلکہ تیلگو، تمل، کنڑ، پنجابی، آسامی، اڑیا اور یہاں تک کہ کھڑی بولی بھی سیکھی۔
لتا منگیشکر حالانکہ کسی کھیل کود سے منسلک نہ تھیں، مگر چند کرکٹرز کو وہ بہت پسند کرتی تھیں جن میںاپنے زمانہ کے اسپن گیندباز بی ایس چندر شیکھر، سنیل گواسکر، فاروق انجینئر، سچن تندولکر اورراولپنڈی ایکسپریس شعیب اخترکے نام نمایاں ہیں۔ اسے ایک حسین اتفاق ہی کہیں کہ شعیب اختر انہیں ’’اماں جان‘‘ کہا کرتے ہیں۔
لتا منگیشکر کی رخصتی سے سرحد پار پاکستان میں بھی غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔حد تو یہ ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں وہاں وزیر اطلاعات و نشریات چودھری فواد حسین نے ان کی موت پر اظہار تعزیت اور خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کو وہ اپنی بہن مانتے ہیں اور دنیائے موسیقی پر سات دہائیوں تک لتا صاحبہ کا بول بالا رہا۔وہیں ٹوئٹر پر کروڑوں پاکستانیوں نے ان کی موت پر غم کا اظہار کیا۔ بعض لوگوں نے ان کا موازنہ پاکستان کی ملکہ موسیقی نور جہاں سے بھی کیا۔ کراچی کی کالم نگار دردانہ انجم نے انہیں ’’میوزیکل نائٹنگل‘‘کا خطاب دے ڈالا اور کہا کہ ہندوستان سے زیادہ پاکستان میں ان کے گیت مقبول ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ پاکستان میں کوئی بھی گھر ایسا نہیں ہے، جہاں لوگ ان کے نغموں سے لطف اندوز نہ ہوتے ہوں۔ بھلے ہی وہ اس دارفانی سے کوچ کر گئی ہوں، جسمانی اعتبار سے دنیا کے سامنے نہ ہوں، مگرجذباتی اور روحانی اعتبار سے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔
دنیائے موسیقی کا زرّیں ترین ستارہ اور ملکہ گلوکارہ لتا منگیشکر تمام دنیا کو غمگین کرکے اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ ان کی رخصتی سے جو خلا بن گیا ہے، وہ رہتی دنیا تک کبھی پُر نہیں ہونے والا۔ان کے بارے میں ایک مرتبہ شہنشاہِ جذبات دلیپ کمار نے کہا تھا کہ ’لتا خدا کے دیے گئے بہترین ہندوستانی عطیات میں سے ایک ہیں۔‘ لتا منگیشکر بھی دلیپ کمار کو خوب مانتی تھیں، بقول ان کے کہ انہوں نے اتنا اعلیٰ ظرف انسان نہیں دیکھا تھا۔
لتامنگیشکر ملک کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی چند نامی گرامی شخصیات میں شمار کی جاتی تھیں مگر اس مقام تک پہنچنے میں انہیں کافی جدوجہد کرنی پڑی۔تقریباً پانچ برس قبل کسی امریکی نے ایک اخبار میں تحریر کیا تھا کہ لتامنگیشکر دنیا کی مقبول ترین پانچ ہستیوں میں سے ایک ہیں۔
لتامنگیشکر نے ’’دوردرشن‘‘ میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھلے ہی وہ اسکول اور کالج کی تعلیم سے فیضیاب نہیں ہوپائیں مگر انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی کے ہر مرحلے پر بڑی دشواری کا سامنا کیا۔ان کا ماننا ہے کہ جو لوگ منہ میں چاندی کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں یا بغیر کسی جدوجہد کے کوئی اعلیٰ مقام حاصل کر لیتے ہیں، ان کو نہ اس کی کوئی وقعت ہوتی ہے اور نہ ان کا وہ وقار ہوپاتا ہے۔بغیر جدوجہد کے انسان تقریباً پگلایا سا ہی رہتا ہے۔‘‘
محترمہ لتامنگیشکر کے والد دینا ناتھ منگیشکر بھی اپنے زمانہ کے ایک اچھے موسیقار تھے اور ان کی تین بہنیں، آشا بھونسلے، اوشا منگیشکر اور مینا بھی گلوکارائیں ہیں۔ بھائی ہردے ناتھ منگیشکر بھی اسی پیشہ سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ ایک حسین اتفاق ہی کہا جائے کہ ان کی بہن آشا بھونسلے بھی انہی کے پائے کی گلوکارہ ہیں اور دنیا میں انہوں نے بھی اتنا ہی نام کمایا ہے جتنا بڑی بہن نے۔جہاں لتامنگیشکر نے 36002گانوں کی ریکارڈنگ کی اور تقریباً اتنے ہی گانے ان کے بغیر ریکارڈنگ کے ان کے چاہنے والوں کے دلوں کو چھو گئے، اسی طرح سے آشا بھونسلے نے بھی تقریباً 20 ہزار گانوں کو ریکارڈ کرایا۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی پروگرام یا محفل میں دونوں کو گیت گانے کے لیے بلایا جاتا تھا تو یہ دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے فراق میں رہتیں اور بسا اوقات جیت لتا کی ہی ہوتی تھی۔
لتا منگیشکر بچپن سے ہی گلوکارہ بننا چاہتی تھیں۔ جس وقت ان کی عمر صرف 13سال تھی، مالی بحران کی وجہ سے انہوں نے فلموں میں اداکاری کی جب کہ ان کو یہ لائن پسند نہیں تھی۔ انہوں نے ہندی اور مراٹھی فلموں میں کام کیا۔ بطور اداکارہ ان کی پہلی فلم ’’ہیلی منگلاگور‘‘ (1942) تھی۔ اس میں انہوں نے اچھی خاصی اداکاری نبھائی۔ اس کے بعد دیگر کئی فلموں میں کام کیا، جن میں ’’ماجھے بال چیمو کلا سنسار‘‘ (1943)، ’’گج بھاؤ‘‘ (1944)، ’’بڑی ماں‘‘ (1945)، ’’جیون یاترا(1946)، ’’ماند‘‘ (1948)، ’’چھترپتی شیواجی‘‘(1952)وغیرہ میں کام کیا۔ ’بڑی ماں‘ میں انہوں نے نور جہاں کے ساتھ ان کی چھوٹی بہن کا رول نبھایا۔ جب لتامنگیشکر نے گلوکاری کی دنیا میں قدم رکھا تو ان کے لیے وہ بڑا دشوار وقت تھا کیونکہ اس وقت نور جہاں، امیر بائی کرناٹکی، شمشاد بیگم، راج کماری وغیرہ کا راج تھا۔ایسے ماحول میں اپنی جگہ بنانا بڑا مشکل کام تھا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی منزل کی جانب بڑھتی رہیں۔ یہ وہ دور تھا کہ جہاں سے انہوں نے کبھی بھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔
لتامنگیشکر کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں انہیں مختلف انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ جن میں1958, 1962, 1965, 1969, 1993اور 1994کے فلم فیئر ایوارڈ شامل تھے۔ اسی طرح 1972, 1975اور 1990کے نیشنل ایوارڈ حاصل ہوئے۔ مہاراشٹر گورنمنٹ ایوارڈ انہیں1966اور 1967میں دیے گئے۔ 1969میں پدم بھوشن سے نوازا گیا جبکہ 1974میں دنیا سب سے زیادہ گانوں کا گنیز بک ریکارڈ حاصل ہوا۔ پھر 1989 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، 1993میں فلم فیئر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، 1996میں اسکرین لائف ٹائم ایوارڈ، 1997میں راجیوگاندھی ایوارڈ، 1999میں این ٹی آر ایوارڈ و پدم ویبھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔2001میں ہندوستان کا سب سے بڑا شہری اعجاز بھارت رتن حاصل ہوا۔
صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند نے صحیح کہا کہ ’بھارت رتن، لتا منگیشکر کے جانے سے، موسیقی کے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا ہے۔‘
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS