مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کا یہ خطرناک کھیل آخر کب تک؟: مولانا ارشد مدنی

0
Image:Outlook India

کورونااورلاک ڈاؤن بھی نفرت کے وائرس کو ختم نہیں کرسکے
نئی دہلی (ایس این بی) :حال ہی میں ہریانہ کے میوات، دہلی سے متصل غازی آباد کے لونی میں اور ملک کے بعض دوسرے مقامات پر ماب لنچنگ اور مساجد
کی بے حرمتی کے افسوسناک واقعات پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی نے آج اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ
مذہبی منافرت ملک کو ترقی نہیں بلکہ تباہی کے راستہ پر لے جارہی ہے اور مذہب کے نام پر ملک بھر میں جو خطرناک کھیل کھیلا جارہا ہے، اس سے سماجی
طور پر نفرت کی خلیج مزید گہری ہوتی جارہی ہے اور ایک بار پھر خوف ودہشت کا ماحول تیار ہو رہا ہے، جس کی نحوست سے ملک ہمہ جہت تنزل کا شکار
ہے۔
انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے جب کورونا کی دوسری لہر انسانی جانوں کو نگل رہی تھی تو لوگ مذہب سے اوپر اٹھ کر ایک دوسرے کی مدد کر رہے
تھے، ہندو مسلم، سکھ عیسائی سب ایک ساتھ آکر کورونا متاثرین کا تعاون اور مدد کر رہے تھے، تب یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جو کام ہمارے حکمراں اور
سیاستداں نہیں کر سکے، اس کو کورونا کے زیر اثر پید اہوئے انسانی ہمدردی کے جذبہ نے پوراکر دکھایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تب پرنٹ والیکٹرانک میڈیا
سے لے کر سوشل میڈیا تک یہ کہا جانے لگا تھا کہ اس وبا نے تمام ہندوستانیوں کو متحد کردیا ہے اور اس منافرت کی دیوار کو مسمار کر دیا ہے، جو فرقہ
پرست پارٹیوں اور تنظیموں نے اپنے سیاسی مفاد کیلئے ان کے درمیان کھڑی کردی تھی، تب ملک کے ہر امن پسند شہری نے اطمینان کا سانس لیا تھا، لیکن
الیکشن کے قریب آتے ہی ایک بار پھر نفرت کا کھیل شروع ہوگیا اور ایک مخصوص نظریہ کے لوگ پولیس کے زیر سایہ پرانی پرانی مسجدوں اور نہتے
مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اپنا نشانہ بنانے لگے، یہاں تک کہ بزرگوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے، ان کی داڑھی کاٹی جارہی ہے، بزرگ
کے ساتھ یہ معاملہ شر پسندوں نے مذہبی منافرت پھیلانے کیلئے کیا، جو کہ افسوسناک ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اب یہ سچائی پوری طرح اجاگر ہوگئی ہے
کہ جب بھی کوئی الیکشن قریب ہوتاہے، اچانک ایک مخصوص طبقہ شر انگیزی اور مذہی منافرت کو ہوا دینے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ کچھ
لوگ سماج میں فرقہ وارانہ حد بندی قائم کرکے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، یعنی تمام واقعات سیاسی بنیاد پر کئے جارہے ہیں، ان لوگوں کے نزدیک نہ تو ملک
کے آئین کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی انسانی جذبوں کی، جبکہ ملک ایک بڑے اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے، روزگار ختم ہورہے ہیں، تعلیم یافتہ نوجوانوں
کی ایک پوری نسل بیکاری کا شکار ہے، ملک کی شرح نمومنفی ہندسہ تک جاپہنچی ہے، ہم اکیسویں صدی میں بھلے ہی جی رہے ہیں مگر ملک کے شہری تمام تر
ترقی کے دعوؤں کے باوجود اب بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں، کورونا کی وبانے ترقی کی بھیانک سچائی سامنے پیش کردی ہے، جب ہم لوگوں کو
آکسیجن تک مہیا نہ کراسکے، اس کی کمی سے ہزاروں افراد دم توڑ گئے، بہت سے لوگوں کو اسپتال میں بیڈ نہیں ملا، اگر مل بھی گیا تو انہیں ضرورت کی
دوائیں نہیں مل سکیں۔
مولانا مدنی نے کہاکہ اب اگراس کے بعدبھی ہمارا ضمیر بیدار نہیں ہوتا اور ہم اسی طرح مذہبی شدت پسندی اور منافرت کا کھیل کھیلتے رہے اور کروڑوں
لوگوں کے دلوں کو مایوسی کا شکار بناتے رہے تو اس کو ملک کی بدقسمتی کے سوا کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا۔ انھوں نے اس امر پر سخت افسوس کا
اظہار کیا کہ جو لوگ ملک میں نفرت پھیلاتے ہیں، تشدد برپا کرتے ہیں، ان کی گرفت نہیں ہوتی، بلکہ کچھ لوگ ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر ان کا دفاع کرتے ہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ شدت پسند لوگوں کو کسی نہ کسی طور پر سیاسی پشت پناہی حاصل ہے ،شاید یہی وجہ ہے کہ پولیس بھی ان لوگوں پر ہاتھ ڈالتے
ہوئے گھبراتی ہے اور ایسا کرنے والوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ اسی لئے ماب لنچنگ کرنے والے شر پسند گروہ بے خوف وخطر دہشت گردانہ عمل کو انجام
دیتے ہیں، کیونکہ ان کو یقین ہے کہ ہماری سرپرستی کرنے والے اقتدار میں موجود ہیں، جس کی وجہ سے قتل کرنے کے باوجود بھی ان پر ایسی دفعات لگائی
جاتی ہیں، جس سے ان کی آسانی سے ضمانت ہو جاتی ہے، اس کے برخلاف دوسری طرف دہلی فسادات میں مسلمان ہی زیادہ قتل ہوئے، ان ہی کی دکانیں لوٹی
گئیں، انہی کے گھر جلائے گئے، انہی کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی گئی اور پھر الٹے ان پر ہی اکیس اکیس تک دفعات لگا دی گئیں، جس کی وجہ سے
ان کی ضمانتیں لوور کورٹ سے نہیں ہورہی ہیں، انصاف کا یہ دہرا معیار ملک کیلئے انتہائی خطرناک ہے، اس صورت حال کا ایک خطرناک نتیجہ خدانخواستہ
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب یہ ناپسندیدہ عنصر اس قتل وغارت گری کا اقلیت کے خلاف عادی ہو جائے گا تو اکثریت کے شریف لوگ بھی ان کے ظلم وزیادتی
سے محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔
مولانا مدنی نے انتباہ کیا کہ ابھی وقت ہے کہ اس مذموم سلسلہ کو بند کیا جائے اور مذہبی شدت پسندی اور فرقہ وارانہ صف بندی کی جگہ اسکولوں، کالجوں،
اسپتالوں اور نوکریوں کی بات ہونی چاہئے اور مل بیٹھ کر ملک کو تباہ ہونے سے بچانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ پچھلے کچھ
سالوں سے نفرت کی جو سیاست ہورہی ہے، اس کے بھیانک نتائج سامنے آنے لگے ہیں، اگر اب بھی حکمرانوں کی آنکھیں نہیں کھلیں تو پھر ملک تنزلی کی جس
خطرناک راہ پر چل پڑے گا، وہاں سے واپس لانا مشکل ہوجائے گا۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ملک قانون اور انصاف کی حکمرانی سے چلتا ہے اور باہمی اتحاد سے آگے بڑھتا ہے، اسی لئے ہم مسلسل یہ بات کہتے آئے ہیں کہ
نفرت کی جگہ ملک میں قومی یکجہتی، باہمی اتحاد اور ہندو مسلم بھائی چارہ کو فروغ دیا جانا چاہئے، کیونکہ انسانی تاریخ شاہد ہے کہ محبت اپنے ساتھ امن،
ترقی اور خوشحالی لے کر آتی ہے، مگر نفرت صرف اور صرف تباہی وبربادی ہی لاتی ہے ۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS