پٹنہ سے چلنے والی ہوا کہاں تک جائے گی؟ : عبدالعزیز

0

عبدالعزیز

اپوزیشن پارٹیوں کا پہلا اجتماع پٹنہ سے ہی شروع ہوا تھا ۔ پہلے اجتماع سے بھی بی جے پی میں گھبراہٹ پیدا ہوگئی تھی لیکن بنگلور میں اپوزیشن پارٹیوں نے اتحاد کا نام ’’انڈیا‘‘ رکھا تو اس سے مودی اور مودی کے کیمپ میں مہینوں کھلبلی مچی رہی۔ مودی اور ان کے کارندے نے ’انڈیا اتحاد‘ کے نام کو بگاڑنے اور اسے کمتر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا، لیکن ارباب اقتدار اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔
دو روز پہلے پٹنہ میں انڈیا اتحاد کا اجتماع ہوا جس میں اتحاد سے تعلق رکھنے والی تقریباً ساری پارٹیوں کے سربراہ شریک تھے۔ اتنا بڑا مجمع تھا کہ حد نظر میں آنا مشکل تھا۔ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد لوگ جمع تھے۔ نتیش کی حکومت بہت سے لوگوں کو جگہ بہ جگہ گاندھی میدان میں پہنچنے سے رکاوٹ پیدا کر رہی تھی۔ تمام رکاوٹوں کے باوجود میدان ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بنا ہوا تھا۔ پٹنہ کی سڑکوں پر بھی اچھی خاصی بھیڑ اجتماع کی کارروائی سننے اور دیکھنے کے لئے تڑپ رہی تھی۔
یوں تو ہر اپوزیشن لیڈر نے بہت ہی پُر اثر اور پُرمغز تقریریں کیں۔ راہل گاندھی نے کہاکہ بہار ایسی ریاست ہے جہاں سے جب انتخابی ہوا چلتی ہے تو وہ پورے ملک کے لئے طوفان بن جاتی ہے۔ ان کی بات صحیح ثابت ہوئی۔ سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے بہت ہی پرزور اور پرجوش تقریر کی اور کہاکہ بہار میں چالیس اور اتر پردیش میں 80 سیٹوں پر بی جے پی کو ہرانا ہے۔ 120 سیٹ اگر ہم بہار اور یوپی میں جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بی جے پی کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ ان حضرات کے علاوہ جن کی تقریروں سے لوگ زیادہ محظوظ ہوئے اور جن کی تقریریں مجمع پر چھائی رہیں وہ باپ بیٹے کی تقریریں تھیں یعنی لالو پرساد اور تیجسوی یادو ۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہاکہ انھیں زیادہ نہیں بولنا ہے اس لئے کہ لالو جی تقریر کریں گے۔ لالو جی جب مائیک پر آئے تو مجمع عام جوش اور جذبے سے امنڈ پڑا اور ایسا لگا کہ ان کی ہر ایک بات لوگ غور و فکر کے ساتھ سننا چاہتے ہیں۔ تیجسوی یادو نے نتیش کمار کے پلٹی مارنے کے بعد بہار کے 40,45 جگہوں کا دورہ کیا اور اس اجتماع عام میں شرکت کے لئے ہر ایک سے کہاکہ بابا نے بلایا ہے۔ بابا کے بلانے کا غیر معمولی اثر پڑا۔ لوگ باپ بیٹے کی تقریر سننا چاہتے تھے۔
لالو پرساد نے اپنے کارناموں کو ایک ایک کرکے گنایا اور بتایا کہ 1990ء میں کمزوروں، دلتوں اور اقلیتوں کو ذہنی غلامی سے آزاد کرایا۔ وہ وقت تھا جب غریبوں کو خاص کر دلتوں کو کنویں سے پانی نکالنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ چپل پہن کر کوئی دلت گاؤں سے گزر نہیں سکتا تھا۔ سائیکل پر سوار ہوکر بھی کسی گاؤں سے گزرنا محال تھا۔ کوئی بارات ایسی نہیں گزرتی تھی جس میں دولھا گھوڑی پر سوار ہو۔ لالو نے مزید کہاکہ انھوں نے دلتوں کو، کمزوروں کو لڑنا سکھایا۔ لڑجھگڑ کر اپنا حق لینے کا گُر بتایا۔ لالو جی کی ان سب باتوں کا اتنا اثر نہیں ہوا لیکن جب انھوں نے کہا کہ ’’یہ نریندر مودی کون ہے؟ جب دیکھو یہ پریوار واد پر حملہ کرتا رہتا ہے۔ ان کو سنتان نہیں ہے تو اس میں کس کا قصور ہے۔ تمہارے پاس پریوار نہیں ہے تو اس کا کون ذمہ دار ہے۔ مودی تو ہندو بھی نہیں ہے۔ہر ہندو اپنے ماں یا اپنے گھر والوں کے سوگ میں اپنے سر اور داڑھی کے بال کو چھلا دیتا ہے، لیکن مودی نے ایسا نہیں کیا اور ہندو پرم پرا کے مطابق اپنی ماں کا سوگ بھی نہیں منایا‘‘۔ یہ آواز پورے ملک میں کچھ اس طرح گونجی کہ مودی جی کو اپنے پریوار کی گواہی دینی پڑی۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا پریوار ہے یا نہیں ہے۔ اپنے خاندان یا پریوار سے ہٹ کر لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے تلنگانہ کے ایک جلسہ میں 140 کروڑ لوگوں کو اپنا پریوار بتایا۔ نوجوانوں اور عورتوں کو بھی اپنے پریوار کا حصہ بتایا۔ یہ بھی کہاکہ جس کا کوئی نہیں ہے اس کا میں ہوں اور وہ ہمارا ہے۔ اس طرح انھوں نے لیپا پوتی کر کے جواب دینے کی کوشش کی۔
کانگریس نے مودی کے اس جواب کو ایک گیمک (چال) سے تعبیر کیا اور بہت سے ٹوئٹ کئے گئے جس میں بتایا گیا کہ برج بھوشن سرن سنگھ پہلوان جس نے عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے وہ بھی مودی کے پریوار کے ہیں۔ ٹینی جنھوں نے کسانوں کو حیران و پریشان کیا اور جن کے لڑکے نے اپنی گاڑی سے چار کسانوں کو کچل کر مار ڈالا وہ بھی مودی کے پریوار ہیں۔ اس طرح بی جے پی کے جن لیڈروں یا ایم پی، ایم ایل اے نے عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے ہر ایک کا نام لکھ لکھ کر سوشل میڈیا میں ٹوئٹ کیا کہ یہ سب مودی کے پریوار کے ہیں۔ جب مودی اور ان کی پارٹی کانگریس کے حملے کا جواب نہیں دے سکی تو پھر پرانے کرتب کو مودی اور ان کی پارٹی نے دہرایا۔
2019 میں جب راہل گاندھی نے کہاتھا کہ ’’چوکیدار چور ہے‘‘ تو بی جے پی کے لیڈر اور کارکن اپنے آپ کو اپنی پیٹھ پر لکھ کر دکھایا کہ ’’میں بھی چوکیدار ہوں‘‘۔ ٹھیک اسی طرح اب بی جے پی کے چھوٹے اور بڑے لوگ لکھ رہے ہیں کہ ’’میں مودی کا پریوار ہوں‘‘۔ لالو پرساد کے ایک سوال کا تو الٹا سیدھا جواب آگیا، لیکن ایک اور سوال تھا کہ مودی ہندو نہیں ہے اور نہ ہونے کی وجہ بھی بتائی گئی تھی اس کا کچھ جواب مودی سے یا ان کے لوگوں اور آئی ٹی سیل سے نہیں بن پڑی کہ آخر وہ کیسے لکھیں گے کہ میں ہندو نہیں ہوں۔ لالو نے تو ایسا تیر چلایا ہے کہ وہ دشمن کے سینے میں پیوست ہوگیا، لیکن ان کے بیٹے تیجسوی یادو نے جس جوش اور جذبے کے ساتھ تیر چلایا وہ بی جے پی والوں کے سینے میں ایسا پیوست ہوگیا ہے کہ اسے نکالنا مشکل ہے۔ تیجسوی نے اپنے پلٹو چاچا کا بھی ذکر کیا اور کہاکہ وہ ان کے بزرگ ہیں، لیکن بی جے پی میں جاکر جس طرح ان کی دشا اور درگتی ہورہی ہے اس سے ان کو تکلیف ہورہی ہے۔ بہر حال ان کی عزت انھوں نے خود ملیامیٹ کردی۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اپنے کئے کا کوئی علاج نہیں ہے۔ وہ 2024 میں ختم ہوجائیں گے۔ وہ جدھر بھی جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے ، مٹ جائیں گے لیکن دوسری طرف نہیں جائیں گے۔ جب وہ نریندر مودی کے سامنے ان کو یقین دلانے کے لئے کہہ رہے تھے کہ اب وہ یہیں رہیں گے کہیں نہیں جائیں گے تو مودی جی ان کی باتوں پر ہنس رہے تھے اور ہنسی کو دیکھ کر نتیش چاچا کا حال کچھ اس طرح تھا جیسے کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ تیجسوی نے بہت ہی کیچنگ تقریر کی۔ ہرکوئی ان کی تقریر کو آسانی سے سمجھ رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ایک طرف فرقہ پرست اور موقع پرست اور دوسری طرف ملک کو اور ملک کے دستور کو اور انسانیت کو تار تار ہونے سے بچانے کے لئے ہیں۔
تیجسوی کی تقریر میں بہت سی ایسی باتیں تھیں جس سے ان کی پختگی، تجربہ کاری کا اظہار ہورہا تھا اور وہ پورے مجمع عام پر چھائے ہوئے تھے۔ راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور تیجسوی یادو اور اتحاد کے دیگر نوجوان کنہیا کمار، عمران پرتاپ گڑھی یہ ایسے لوگ ہیں جن کی مثال بی جے پی میں ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ امید یہی ہے کہ ان کی تقریروں سے ان کے سوالوں سے مودی اور ان کے لوگ لاجواب ہوتے رہیں گے۔ دس سال میں مودی کے اندر جرأت اور سکت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ کسی اخباری نامہ نگار کے کسی سوال کا ملک یا بیرون ملک میں جواب دے سکیں۔ صرف ہوا میں لاٹھی بھانجتے ہیں اور ان لیڈروں کا جواب دیتے ہیں جو وہاں موجود نہیں رہتے۔ دیکھنا ہے کہ لالو کی تقریر کے ایک حصے کا وہ جواب دینے میں تھکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دوسرے سوال کا وہ کب جواب دیں گے وہ راہل گاندھی اور ان کے خاندان کو گرانے اور بے عزت کرنے سے باز نہیں آتے۔ جواہر لعل نہرو جیسے مدبر، مصنف اور دانشور کی قبر کھودتے ہیں اور ان کی بھی بے عزتی کرنے سے باز نہیں آتے۔ لالو پرساد نے ایسا لگتا ہے کہ یہ کہہ کر مودی کا کوئی سنتان نہیں ہے اور وہ ہندو بھی نہیں ہیں، بہت ہی جارحانہ حملہ کیا ہے، لیکن نریندر مودی جو گاندھی پریوار کی بات کرتے ہیں اور جو گڑے مردے اکھاڑتے ہیں ان سب کا اگر دیکھا جائے تو لالو نے بہت ہی سنجیدگی سے جبکہ وہ سنجیدگی سے بات نہیں کرتے دندانِ شکن جواب دیا ہے۔ مودی کو ایسا زخم لگا ہوگا کہ وہ برسوں یاد رکھیں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS