پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان کو حاصل مراعات و تحفظات کی حد فاصل : خواجہ عبدالمنتقم

0
Image: The Indian Express

خواجہ عبدالمنتقم

ہمارے آئین کے تحت پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان کو کچھ اختیارات، مراعات اور تحفظات حاصل ہیں۔ اکثر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان مراعات کا قانونی جواز کیا ہے۔ یہ وہ مراعات ہیں جو پارلیمنٹ کے ارکان کو آئین (44ویں ترمیم ایکٹ) کے نفاذ سے قبل حاصل تھیںاوریہ مراعات تب تک جاری رہیں گی جب تک قانون وضع کرکے انہیں ختم نہیں کردیا جاتا۔ آئین کی دفعہ105،جوپارلیمنٹ کے ایوانوں اور ان کے ارکان اور کمیٹیوں کے اختیارات، مراعات وغیرہ سے متعلق ہے، اس کے فقرہ(2) میں یہ التزام ہے کہ پارلیمنٹ کا کوئی رکن پارلیمنٹ یا اس کی کسی کمیٹی میں کہی ہوئی کسی بات یادیے ہوئے کسی ووٹ سے متعلق کسی عدالت میں کسی کارروائی کا مستوجب نہ ہوگااور کوئی شخص پارلیمنٹ کے ہر دوایوانوں کے اختیار سے اس کے تحت کسی رپورٹ، پیپر، وو ٹ یا کارروائی کی اشاعت کی بابت اس طرح مستوجب نہ ہوگا۔ اسی طرح دفعہ 194، جوریاستی مجالس قانون ساز اور ان کے ارکان کے اختیارات، مراعات اور تحفظات سے متعلق ہے، اس میں بھی اسی طرح کا التزام ہے۔
پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے ارکان پرpublic servantہونے کے ناطے ان کے ایوان سے باہر کیے گئے کسی بدعنوانی جیسے رشوت ستانی کے معاملات پرتو قانونی کارروائی کی جا سکتی تھی لیکن مندرجہ بالا دفعات کے متعلقہ فقرہ جات کے تحت پارلیمنٹ یا اسمبلی میں رشوت لے کر کسی کے حق میں ووٹ دینے کے معاملات میں انہیں اس طرح کی کارروائی سے چھوٹ تھی۔ یہ چھوٹ انہیں پی وی نرسمہا راؤ بنام ریاست والے معاملے(1998) 4 SCC 626) میں دیے گئے فیصلے کی رو سے حاصل تھی لیکن اب چیف جسٹس والی سات رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے کو الٹتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ مندرجہ بالا دفعات میں جو انہیں ووٹ دینے یا اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی کا تحفظ فراہم کیا گیا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا یہ تحفظ انہیں اپنے کسی غیر قانونی فعل کی صورت میں بھی حاصل ہوگا۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اگر کسی رکن نے رشوت قبول کرلی یا رشوت قبول کرنے کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کردی تو سمجھئے کہ رشوت ستانی کے جرم کا ارتکاب مکمل ہوگیا، خواہ رشوت لینے والا شخص اس غرض کو پورا کرے یا نہ کرے جس کے لیے اس نے یہ رشوت لی تھی۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان ارکان کو ایسی بدعنوانی کے فعل کے لیے انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت کی جانے والی کارروائی سے چھوٹ دینا ہماری جمہوریت کی بنیاد پر شدید ضرب کاری ہوگی اور ہمارے عوام نے جن نمائندوں کو ان ایوانوں میں بھیجا ہے، انہیں ذمہ دار اور جواب دہ ارکان سے محروم کرنا ہوگا۔
پارلیمنٹ اور ریاستوں کے ارکان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ انہیں متذکرہ بالا دفعات کے فقرہ جات (3) و (4)میں درج ان التزامات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگاجن کی عبارت درج ذیل ہے:
’(3) دیگر اعتبار سے پارلیمنٹ کے ہر ایک ایوان اور ہر ایوان کے ارکان اور کمیٹیوں کے اختیارات، مراعات اور تحفظات ایسے ہوں گے جن کا پارلیمنٹ وقتا فوقتاً قانون کے ذریعہ تعین کرے اور اس طرح تعین ہونے تک وہی ہوں گے جو اس ایوان اور اس کے ارکان اور کمیٹیوں کے بھارت کے آئین (چوالیسویں ترمیم) ایکٹ 1978کی دفعہ 15کی تاریخ نفاذ سے فوراً پہلے ہوں۔
(4) فقرہ جات (1)،(2)اور ( 3) کی توضیعات کا اطلاق ان اشخاص سے متعلق جن کو اس آئین کی رو سے پارلیمنٹ کے کسی ایوان یا اس کی کسی کمیٹی کی کارروائی میں تقریر کرنے اور اس میں دیگر طور پر حصہ لینے کا حق حاصل ہے، ویسا ہی ہوگا جیسا ان کا اطلاق پارلیمنٹ کے ارکان سے متعلق ہوتا ہے۔‘
اسی طرح کے التزامات اسمبلیوں کے ارکان سے متعلق دفعہ کے مماثل فقرہ جات میں بھی شامل ہیں۔سپریم کورٹ کا مزید یہ کہنا ہے کہ رشوت ستانی کے معاملات میں ایک عام شہری اور ان ارکان میں کوئی فرق نہیں کیا جانا چاہیے اور ان کے خلاف بھی انسداد بد عنوانی کے تحت قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔
کرپشن یا بدعنوانی صرف رشوت ستانی کا نام نہیں بلکہ یہ ہر اس غیرقانونی عمل کا نام ہے جس سے ہماری جمہوریت کے تینوں ستونوں یعنی مقننہ،عاملہ اور عدلیہ کی ساکھ پرمنفی اثر پڑتا ہے اور ان پر سے عوام کا بھروسہ اٹھنے لگتا ہے۔جب ہمارے منتخب نمائندے اس جماعت سے عہدشکنی کرتے ہوئے اور اعتماد کو توڑتے ہوئے مادی فوائد حاصل کرنے کو اپنا شعار بنانے لگیں اور راجیہ سبھا کے الیکشن میں جس جماعت نے انہیں الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیاتھا، اسے نظرانداز کرتے ہوئے فریق مخالف کے حق میں ووٹ دینے لگیں اور جب کسی الیکشن میں مخصوص امیدوار کی حمایت کرنے اور ایوان میں سوالات پوچھنے کے لیے پیسوں کا لین دین ہونے لگے اور جب نہ صرف تعزیری قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہو بلکہ پیشہ ورانہ ضابطۂ اخلاق کو بھی بالائے طاق رکھ دیا جائے اور وہ ادارے جنہیں سماج اپنا لہو دے کر پالتا ہے اور جنہیں ان کی ہر شعبۂ حیات میں تحفظ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، بد عنوانی میں مبتلا ہوجائیں اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتنے لگیں تو ملک سے کرپشن کو کس طرح جڑ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر جب نگراں ہی خود بد دیانت ہو یعنی رکشک ہی بھکشک ہوجائے تو پھر بد عنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ کے کچھ حالیہ فیصلوں سے جیسے غیرشائستہ زبان کے استعمال پر قدغن لگانا،لنچنگ جیسے پرتشدد معاملات کی نسبت ارباب حکومت کی سرزنش، مذہبی معاملات کی سماعت اور ان کا نمٹارہ سے غالباً یہ گمان ہو نے لگا ہے جیسے کہ وہ عاملہ کا رول ادا کر رہی ہے۔اسی طرح کچھ قوانین کے جواز کو اس کے روبروچیلنج کیا جانا اور اس کا حکومت کو متعلقہ امور کی بابت قانون بنانے کا مشورہ دینا اس جانب اشارہ کر رہا ہے جیسے وہ بالواسطہ مقننہ کا بھی رول ادا کرنے لگی ہے۔
اگر ہمارے ان آئینی اداروں میں بدعنوانی پر قابو نہیں پایا گیا توبدعنوانی مدھومتی بیل یا کسی موذی مرض کی طرح پھیلتی جائے گی اور ہماری سماجی، سیاسی، ثقافتی و روحانی زندگی، جسے اب ہمارے ملک میں کافی اہمیت دی جا رہی ہے، تباہ کر دے گی۔ یہ بیماری ہمارے ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ اس نے اب آفاقی صورت اختیار کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی2005میںبد عنوانی پر قابو پانے کے لیےUnited Nations Convention Against Corruption (UNCAC) کو منظوری دی اور اس میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ تدارکی، اصلاحی و تعزیری تجاویز کا بھی احاطہ کیا۔لیکن یہ بیماری ناسور کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔Transparency International report کے 2023 کے انڈیکس کے مطابق180 ممالک کی فہرست میں ہمارے ملک کا نمبر 93واں ہے ۔بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے یہاں بدعنوانی پر قدغن لگانے سے متعلق بڑی بڑی تقریریں ہوتی ہیں لیکن کبھی موقع پرستی،کبھی مذہبی ترجیحات اور کبھی بے حسی راہ کا روڑہ بن جاتی ہے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS