ہندو راشٹر : مذہب،غیر ہندو اور مذہبی آزادی

0

اے- رحمان

تاریخ سے ناواقفیت اورمقبول عوام الف لیلوی کہانیوں نیز من گھڑت لیکن ازمنۂ قدیم سے سینہ بہ سینہ چلی آ رہی حکایات نے جہاں ایک طرف انار کلی، ملّا نصرالدین اور شیخ چلّی جیسے بے شمار تخیلاتی کرداروں کو اس طور زندگی بخشی کہ عوام الناس انہیں قطعی حقیقی سمجھتے ہیں، تو وہیں بعض اہم تاریخی شخصیات کے مبالغہ آمیز تذکروں نے ان کے حقیقی کردار اور کار ہائے نمایاں کو یوں دھندلا دیا کہ ہیرو ولن اور ولن ہیرو سمجھے جانے لگے۔ ایسا ہی ایک تاریخی ہیرو ہے چنگیز خاں (چنگِس قاہان) جس کا محض نام ہی ظلم و استبداد کا استعارہ بن گیا ہے جبکہ اس نے اپنی جنگی شجاعت،حکمت عملی، سیاسی بصیرت اور غیر معمولی فراست کو بروئے کار لا کر تیرہویں صدی عیسوی میں دنیا کی سب سے بڑی contiguous یعنی ملحق اور متحد سلطنت قائم کی تھی جو یوروپ اور ایشیا کے ایک کروڑ پینتیس لاکھ مربع کلو میٹر زمینی رقبے پر محیط تھی (اس سے قبل عظیم ترین سلطنت روم سمجھی جاتی تھی جس کا رقبہ چوالیس لاکھ مربع کلو میٹر تھا)۔ مطلق العنان شہنشاہ ہوتے ہوئے بھی چنگیز خاں نے مہذب دنیا کو چند اہم جمہوری اقدار سے روشناس کیا جن میں اہم ترین ہے مذہبی آزادی کا تصور۔ تمام مورخین اور مستشرقین اس بات پر متفق ہیں کہ مذہبی آزادی کے اعلان نے ہی اتنی عظیم الشان سلطنت کو سیاسی استحکام بخشا۔ چنگیز خاں کی پہلی مستند اور مفصل (چار جلدوں پر مشتمل) سوانح ایک فرانسیسی عالم فرانسوا پیتی (Francois Petis ) نے تصنیف کی تھی جو 1710 میں شائع ہوئی۔ 1722 میں ایک انگریز ادیب پینیلوپ اوبنPenelope Aubin نے اس کا نگریزی میں ترجمہ کر کے شائع کیا جو فوراً ہی پورے برطانیہ میں مقبول ہو گیا۔ بنجامن فرینکلن نے اس سوانح کو امریکی ریاستوں میں شہرت دی اور امریکی ’’اعلان آزادی‘‘کے خالق و مصنف تیسرے امریکی صدر تھامس جیفرسن نے اسی سوانح سے تحریک حاصل کر کے اپنی ریاست Virginia کے لیے 1779 میں ’’ورجینیا قانون برائے مذہبی آزادی ‘‘ مرتب اور نافذ کیا جو بعد کو ’’ پہلی آئینی ترمیم‘‘ (First Amendment ) کے ذریعے امریکہ کے وفاقی آئین کا حصہ بنا (ہمارے آئین میں مذہبی آزادی کی شق امریکی آئین سے ہی مستعار ہے)۔ جیفرسن کو اپنے اس کارنامے پر اتنا فخر تھا کہ اس کی وصیّت کے مطابق اس کی قبر کے کتبے میں اس کے صرف تین غیر معمولی کارناموں کا ذکر ہے۔ ’’یہاں تھامس جیفرسن دفن ہے جس نے یونیورسٹی آف ورجینیا قائم کی اور جو امریکی اعلان آزادی نیز قانون برائے مذہبی آزادی کا خالق و مصنف ہے۔‘‘ جیفرسن چنگیز خاں کی سوانح سے اس قدر متاثر تھا کہ وہ یہ کتاب اپنے دوستوں اور اہم شخصیات کو تحفے کے طور پر دیتا تھا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ایک سنسنی خیز دریافت ہوئی کہ 1229 میں یعنی چنگیز خاں کی موت کے دو سال بعد اس کی ایک سوانح لکھی گئی تھی جو خفیہ زبان میں تھی۔ یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ اس سوانح کا مصنف کون تھا لیکن بہت جلد اس زبان کو ڈی کوڈ کر لیا گیا او ر 1994 میں ’’منگولوں کی خفیہ تاریخ‘‘کے عنوان سے اس کے کئی انگریزی ترجمے شائع ہو گئے۔ اس کا سب سے مستند ترجمہ چینی نژاد امریکی مصنف اُرگنگے اونون (Urgunge Onon ) نے کیا جو 2001 میں شائع ہوا۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں وہ لکھتا ہے، ’’مشرق میں صرف تین عظیم شخصیات ہوئی ہیں: شاکیہ مُنی، کنفیوشس اور چنگیز خاں ‘‘۔ 2016 میں مشہور امریکی مورخ اور ’’ ماہر منگولیات‘‘ جیک ویدرفورڈ (Jack weatherford) کی کتاب ’’چنگیز خاں اور جستجوئے خدا‘‘ شائع ہوئی جو دو سال تک ’ٹائمس‘ کی بہترین اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں رہی۔ اس کتاب کا ذیلی عنوان ہے ’’کیسے دنیا کے عظیم ترین فاتح نے ہمیں مذہبی آزادی عطا کی‘‘۔ اس کتاب میں ویدرفورڈ نے چنگیز خاں کی متذکرہ بالا ہر دو سوانح سے بھرپور استفادہ کر کے نہایت عالمانہ طریقے سے ثابت کیا ہے کہ دنیا کے عظیم ترین فاتح نے دنیا کی طاقتور ترین قوم کو مذہبی آزادی کا ایسا تصور دیا جس سے بقیہ مہذب قوموں نے بھی فائدہ اٹھایا۔
ہندوستانی آئین میں دی گئی مذہبی آزادی اس نظریے پر قائم ہے کہ ریاست بذات خود لا مذہب ہے، ان معنی میں کہ وہ کسی بھی مذہب کی خصوصی طور پر حمایت یا ترویج نہیں کرتی لیکن ہر شہری (بعض تحفظّات کے ساتھ) اپنے مذہب کی پیروی ،تبلیغ اور ترویج کے لیے پورے طور پر آزاد ہے۔ملک میں اکثریت ہندوؤں کی ہے یعنی وہ شہری جو ہندو مذہب یا دھرم کے پیرو ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہندو مذہب کیا ہے۔اور یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ کوئی تحریری ضابطہ یا مخصوص کتاب ایسی نہیں ہے جو ہندو ازم کی تعریف و توضیح کرتی ہویا جس میں بنیادی عقائد اور ’احکامات‘ درج ہوں۔ ’ہندو ازم‘ کے ذیل میں آنے والے ’سناتن دھرم ‘ (ازلی و ابدی مذہب) اور سوادھرم(ذات یا ’خود‘ سے متعلق مذہب) کو لیا جائے تو تمامتر معاملات ویدانت کے فلسفے۔ اپنشد اور پرانوں کے متون پر مبنی ہیں جو پانچ ہزار سال سے موجود ہیں اور جن میں نہ صرف وحدت الوجود بلکہ انسان اور خالق کائنات کے رشتے پر بڑا عظیم فلسفہ پایا جاتا ہے۔ بیشتر ہندو دانشوروں اور ماہرین ’’ہندوستانیات‘‘ (Indology ) نے ہندوازم کو مذہب کے بجائے ’ایک طرز حیات‘ کہا ہے اور سپریم کورٹ نے اپنے سات اہم فیصلوں میں اس تعریف یا تشریح سے اتفاق کیا ہے۔ وسیع تر معنی میں ’ہندو ازم‘ انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار قائم کرتا ہے اور عقائد میں رواداری کا حامی ہے۔بالفاظ ِ دیگر ہندو ازم (جسے ہندو فلسفہ کہنا بہتر ہے)بلا تخصیص پوری انسانیت کا احاطہ کرتا ہے اور انصاف کے بنیادی تصور کی بھرپور عکاسی بھی۔ ہندو ازم دوسرے اور نسبتاً نئے مذاہب یا بدھ ازم جیسے فلسفوں سے متصادم نہیں ہوتا اور مذہبی آزادی کا علمبردار بھی ہے۔ یہ تمام باتیں کہیں زیادہ تفصیل کے ساتھ سوامی وویکا نند نے بڑے فخر سے1893 میں منعقدہ شکاگو (امریکہ) کی عالمی مذاہب پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے کہی تھیں۔ اس مشہور تقریر کے چند جملے دیکھئے: ’’ مجھے فخر ہے کہ میرا تعلق ایسے مذہب سے ہے جس نے پوری دنیا کو رواداری کا سبق دیا۔ ہندوازم صرف آفاقی روا داری ہی نہیں سکھاتا بلکہ تمام مذاہب کی صداقت کو تسلیم کرتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتا ہوں جس نے ہمیشہ پناہ کی تلاش میں بھٹکتے مظلوم لوگوں کو پناہ دی خواہ وہ دنیا کے کسی کونے سے آئے ہوں۔‘‘
اب بات آتی ہے ہندوتو کی جو مذہب سے زیادہ ایک سیاسی نظریہ ہے۔ اس کے مشمولات میں نسلی تفوّق اور ثقافتی خصوصیات کی شرائط اسے قدیم ہندو دھرم یا عالمی سطح پر متعارف و مقبول ’ہندو ازم‘ اور ہندو فلسفے نہ صرف متصادم کرتی ہیں بلکہ چند پہلوؤں سے ہندو عقیدے کی نفی کرتی نظر آتی ہیں۔ ہندوستان ایک کثیر المذاہب اور کثیر الثقافۃ ملک ہے، لہٰذا دیگر مذاہب کی معاشرتی اور آئینی حیثیت بھی زیر ِ غور آتی ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی آر ایس ایس کی جانب سے ہندوتو کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا گیا تھا ، اور اب جبکہ بی جے پی مکمل طور سے اقتدار کے نشے میں چور ہے تو ہندوتو کے نظریے کی روشنی میں ہندو راشٹر کے قیام اور مذہبی آزادی کے خاتمے کا اندیشہ تمام مذہبی اقلیتوں کے سامنے پھن کاڑھے کھڑا ہے۔ بعض پرجوش بی جے پی رہنما اور آر ایس ایس کار کن تو واضح الفاظ میں دعویٰ کر چکے ہیں کہ اب ملک میں ہندو راج ہے جس سے تحریک پا کر دھرم سنسد جیسے اجتماع منعقد ہوئے، حجاب کے خلاف قوانین بنا دیے گئے اور اب حلال گوشت کامسئلہ سنگینی اختیار کرتا جا رہا ہے۔ لیکن اس ضمن میں خود ہندو ازم کے زاویے سے ہندوتو کے نظریے کے سیاسی اطلاق کی کوشش بعض سنگین قانونی،معاشرتی اور ثقافتی مسائل پیدا کرے گی جن کو سمجھنے کے لیے ہندو دھرم یا ہندو ازم اور ساورکر کے سجھائے ہندوتو کا عملی موازنہ ضروری ہو جاتا ہے،خصوصاً اس صورت میں کہ موجودہ دور میں مذہبی آزادی کا بنیادی تصور مہذب اقوام کا اہم ترین آئینی خاصہ ہے۔ بنیادی نکتہ جو سب سے زیادہ غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ ساورکر علی الاعلان ملحد تھا اور ’ہندوتو‘ (ہندو کون ہے) کی تشریح کرتے ہوئے اس نے زور دے کر کہا (اور لکھا) تھا کہ ہندوتو کا ہندو ازم سے کوئی لینا دینا نہیں اور ہندو شناخت کسی مذہب پر مبنی نہیں ہے۔ (جاری)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS