حکمرانوں کی نیک نیتی سے حجاب کیا ہر مسئلہ کا حل ممکن

0

خواجہ عبدالمنتقم

قانون کی حکمرانی یاقانون کی بالادستی (Rule of law)کا نظریہ ہمارے جدید قانونی نظام کی دین ہے اور یہ آج کی ترقی یافتہ اور متمدن دنیا کا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے۔ یہ اصطلاح ایک فرانسیسی اصول’’La Principe de Legalite‘‘ سے ماخوذ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکار کی جو بھی کارروائی ہو، اس کا کوئی نہ کوئی قانونی جواز ہونا چاہیے۔ سرکار اپنی من مانی نہیں کرسکتی۔ اس اصول کا اطلاق ہر قانونی نظام اور ہر حکومت میں تب تک ہوتا ہے جب تک وہ حکومت قانون کی پابند ہو۔ اب سے 6دہائی قبل 1961 میں ہمارے لاء کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کوئی قوم جمہوری ڈھنگ سے تب تک نہیں چل سکتی جب تک کہ اسے قانون کی بالادستی اور اس کی اہمیت کا مکمل احساس نہ ہو۔ قانون کی برتری، حکام و سرکار کو من مانے ڈھنگ سے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ کوئی بھی شخص قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ انتظامیہ اور قانون کے مابین چولی دامن کا ساتھ ہے۔اسی لیے یوروپی ماہرین قانون نے انتظامیہ اور قانون کے باہمی رشتہ کے بارے میں کہا تھا:
“Rulers and the rule of law are as closely united as the body and the skirt”
قانونی ماہرین کے بین الاقوامی کمیشن نے ا ب سے کئی دہائی قبل اپنی ایک قرارداد میں قانون کی بالادستی کے بارے میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات کہی تھی کہ قانون ساز اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسا قانون بنائیں جس سے تمام انسانوں کو ایک باوقار حیثیت حاصل ہو اور انہیں تمام شہری، سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور ثقافتی حقوق حاصل ہوں۔ کسی بھی شخص کے ساتھ مذہب، نسل، ذات، جنس، نسب، بودوباش یا کسی اور بنا پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے اور انسانوں کے بیچ خواہ ان کا تعلق اقلیت سے ہو یا اکثریت سے یا دیگر کسی طبقے سے کوئی تفریق نہ کی جائے۔ شہریوں کی مذہبی آزادی، ان کے مذہبی عقائد اور مذہبی معاملات میں کوئی دخل اندازی نہ کی جائے۔ کوئی ایسا کام یا کارروائی نہ کی جائے اور اگر کی جارہی ہو تو اسے روکا جائے جس سے کسی بھی شخص کے بنیادی حقوق اور آزادی پر منفی اثر پڑے۔
ایک مہذب معاشرے میں انتظامیہ مناسب تحفظ اور عدالتی نظر ثانی کے تحت ہونی چاہیے تاکہ اس کے ذریعہ کی جانے والی تمام کارروائیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ عدلیہ کو مکمل آزادی حاصل ہو اور انتظامیہ وقانون ساز اداروں کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ عدالت کے کام کاج میں دخل اندازی کرسکیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ا نتظامیہ کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ نظم ونسق قائم رکھے اور وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ معاشرے کو مناسب سماجی اور معاشی حالات میسر ہوں۔ ملزمین و مجرمین کے ساتھ بھی معقول برتاؤ کیا جائے۔ کسی ملزم یا مجرم کو غیرقانونی طریقے سے تب تک ہتھکڑی لگا کر عدالت کے روبرو پیش نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی ذات سے کوئی شدید خطرہ لاحق نہ ہو۔کسی بھی ملزم پر کوئی جسمانی یا نفسیاتی دباؤ نہیں ڈالاجانا چاہیے۔ پریم شکلا والے معاملے ((1980) 3 ایس سی سی 526)میں سپریم کورٹ نے ملزم کو ہتھکڑی لگانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 19 کے تحت عطا کی گئی آزادی کو ہتھکڑی لگا کر کم نہیں کیا جاسکتا۔خواتین کے معاملے میں کسی بھی فورس کو انتہائی معقول و محتاط رویہ اختیار کرناچاہیے اوروشاکھاو دیگربنام ریاست راجستھان والے معاملے(1997) 6 ایس سی سی 241)میںدیے گئے اس فیصلہ کو ہمیشہ دماغ میں رکھنا چاہیے کہ عورتوں کی عصمت کا تحفظ ان کا ایک بنیادی حق ہے۔ جنسی بنیاد پر کیا جانے والا تشدد، تفریق یا امتیاز عورتوں کے بنیادی و انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
اگر قانون ساز ادارے اور انتظامیہ متذکرہ بالا بنیادی اصولوں پر ایمانداری سے عمل کریں تو حجاب ہی کیا ہر بڑے اور چھوٹے مسئلہ کا حل بہ آسانی نکالا جاسکتا ہے اور اگر نیت صاف نہ ہو اور ظاہر و باطن میں تضاد ہو تو کسی بھی مسئلہ کا غیرجانبدارانہ حل نکالا ہی نہیں جا سکتا۔ فوجداری کارروائی میں بھی قانون کی بالادستی کا احترام ضروری ہے۔ کسی بھی ملزم کو اثبات جرم سے قبل مجر م کہنے یا قرار دینے کی اجازت نہیں۔ہندوستانی عدلیہ نے قانون کی بالادستی کے اصول کو بھارت کے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ مانا ہے اور سپریم کورٹ کے گزشتہ لگ بھگ 25 برسوں میں کیے گئے فیصلوں نے اس اصول کو جلابخشی ہے۔ اندرا گاندھی نہرو بنام راج نرائن والے معاملے(اے آئی آر 1975 ایس سی 2299) میںسپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ مملکت کسی شخص کو بھارت کے علاقے میں قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔ عدالت نے اس رائے کا بھی اظہار کیا تھا کہ آئین میں ایسی کوئی دفعہ شامل نہیں کی جا سکتی جس کا مقصد اقتدار قانون کو نقصان پہچانا ہو۔
بچن سنگھ بنام ریاست پنجاب والے معاملے (اے آئی آر 1982 ایس سی 1325) میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ قانون کی بالادستی میں من مانے ڈھنگ سے کام کرنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے اور جہاں پر بھی یہ محسوس ہو کہ کوئی کام من مانے ڈھنگ سے کیا گیا ہے یا ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے تو اسے قانون کی بالادستی کی نفی سمجھا جائے گا۔ ڈی ٹی سی بنام دلی ٹرانسپورٹ مزدور کانگریس والے معاملے(اے آئی آر 1991 ایس سی 101 )میں بھی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کوئی بھی ایسا فیصلہ جو مسلمہ اصولوں اور قاعدوں کے خلاف ہو، وہ غیر قانونی ہے اور اس سے قانون کی بالادستی کے اصول کی نفی ہوتی ہے۔ اسی طرح مینکا گاندھی بنام یونین آف انڈیا والے معاملے (اے آئی آر 1970 ایس سی 150) میں بھی سپریم کورٹ نے اسی قسم کی رائے کا اظہار کیا تھا اور قانون کی بالادستی کے اصول پر سختی سے عمل درآمدگی کی بات کہی تھی۔
متذکرہ بالا تمام نظیروں سے اور اس سے قبل کیے گئے قانون کی بالادستی کی اصطلاح کے تجزیہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں یا ایسے کسی بھی دیگر ملک میں جہاں قانون کا احترام کیا جاتا ہو، قانون کی بالادستی کے اصول کے مطابق چلنا اشد ضروری ہے۔ ہماری سپریم کورٹ نے بھی اس ضمن میں مزید فعالیت کا اظہار کرنا شروع کرد یا ہے۔ اس نے حال ہی میں اتر پردیش کی حکومت کے شہریت قانون کی مخالفت کرنے والے ایسے افراد کے خلاف جنہیں ہرجانہ وصول کرنے کے نوٹس جاری کیے تھے، انہیں واپس لینے کا حکم جاری کیا ہے ۔ اگر ہماری عدلیہ اسی طرح فعالیت کا اظہار کرتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب وہ بے گناہ لوگوں کی ناجائز گرفتاری، یک طویل عرصہ تک جیل میں رہنے اور ا ن کی بے گناہی ثابت ہونے پر رہائی کے بعد انہیں معقول معاوضہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کے احکام بھی جاری کرے گی جنہوں نے دیدہ دانستہ ایسے احکام جاری کیے تھے جن کے سبب بے گناہ لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی سال قید کی صعوبتیں جھیلنے میں گزارنے پڑے۔ فی الحال تو سب کی نگاہ حجاب والے معاملے پر مرکوز ہے جو اپنے قانونی سفر کو طے کرتے ہوئے کسی بھی وقت پھر سپریم کورٹ پہنچ سکتا ہے۔ دیکھئے اونٹ کہاں کہاں کس کس کروٹ بیٹھتا ہے؟
(مضمون نگار آزاد صحافی،مصنف و سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ این سی پی یو ایل کے لاء پینل کے رکن بھی ہیں اورامیٹی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS