حجاب، مشکلات و تدارک

0
www.deccanherald.com

محمد شعیب ندوی
عصر حاضر میں صنف اناث کو ترقی و عروج کے نام پر مغربی نظریات پر عمل پیراں کیا جا رہا ہے، آزادی کے نام پر اس کو اس کو تجرد و برہنہ کرنے کی سعی پیہم کی جا رہی ہے، مساوات کے نعرہ کے ساتھ اس کے ساتھ عدم مساوات و بے اعتدالی کا برتاؤ کیا جا رہا ہے، تاریخ انسانی میں دو مسئلے بڑے پیچیدہ رہے ہیں جن کے متعلق ابتداء آفرینش سے لیکر اسلام کے ظہور تک بڑی افراط و تفریط رہی ہیں پہلا مسئلہ :اجتماعی زندگی میں مرد اور عورت کا تعلق کس طرح قائم کیا جائے کیوں کہ یہی تعلق دراصل تمدن کا سنگ بنیاد ہے دوسرا فرد اور جماعت کے تعلق کا ہے
ان کو اگر ہم قبل اسلام کی تہذیبوں و معاشروں میں دیکھتے ہیں تو ایک بھیانک و پرخطر تصویر کشی سامنے آتی ہے روم و ایران، مصر، بابل اور دوسرے ممالک کی بھی ہے اور خود ہمارا ملک ہندوستان بھی صدیوں سے افراط و تفریط میں گرفتار ہے افراط و تفریط کی بھول بھلیاں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر عدل کا راستہ دکھانے والا کوئی ہوسکتا تھا تو صرف مسلمان تھا جس کے پاس اجتماعی زندگی کی ساری گتھیوں کے صحیح حل موجود ہیں. مگر دنیا کی بد نصیبی کا یہ بھی ایک عجیب دردناک پہلو ہے کہ اس اندھیرے میں جس کے پاس چراغ تھا وہی کمبخت رتوند کے مرض میں مبتلا ہوگیا اور دوسروں کو راستہ دکھانا تو درکنار خود اندھوں کی طرح بھٹک رہا ہے
مسئلہ حجاب کی ابتدا اٹھارویں صدی کا آخر اور انیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھا جب مغربی قوموں کی ملک گیری کا سیلاب ایک طوفان کی طرح مشرق سے لیکر مغرب تک تمام دنیاء اسلام پر چھا گیا – ہمارے اصلاح طلب افراد نے جب دہشت سے پھٹی ہوئ آنکھوں سے فرنگی عورتوں کی زینت و آرائش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت، اور فرنگی معاشرت میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھا تو اضطراری طور پر ان کے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئ کہ کا کاش! ہماری عورتیں بھی اسی روش پر چلیں تاکہ ہمارا تمدن بھی فرنگی تمدن کا ہمسر ہوجائے. حجاب کا امر الہی اسلام دین فطرت ہے، وہ ہر معاملے میں وہی طریقہ اختیار کرتا ہے جو عقل عام اور فطرت سلیمہ کے عین مطابق ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ رنگین عینکیں اتار کر صاف نگاہ سے معاملات کو ان کی حقیقی و فطری صورت پر دیکھے و پرکھے حجاب کے متعلق ارشاد ربانی ہے
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(سورہ احزاب :59)
اے نبی (صلی اللہ علیہ و سلم)! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں، اس تدبیر سے یہ بات زیادہ متوقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انہیں ستایا نہ جائے گا یہ آیت خاص پردہ و چہروں کو چھپانے کے لئے ہے جلابیب جمع ہے جلباب کی جس کے معنی چادر کے ہیں ادناء کے معنی ارخاء یعنی لٹکانے کے ہیں یدنین علیھن من جلابیبھن کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ اپنے اوپر چادروں میں سے ایک حصہ لٹکا لیا کریں_
یہی مفہوم گھونگھٹ ڈالنے کا ہے مگر اصل مقصد وہ خاص وضع نہیں ہے جس کو عرف عام میں گھونگھٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے بلکہ چہرہ کو چھپانا مقصد ہے خواہ گھونگھٹ سے چھپایا جائے یا نقاب سے یا کسی اور طریقے سے _
حجاب کا فائدہ حجاب کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب مسلمان عورتیں اس طرح مستور ہو کر باہر نکلیں گی تو لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ شریف عورتیں ہیں، بے حیا نہیں ہیں، اس لیے کوئی ان سے تعرض نہ کرے گا، حضرت ابن عباس اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ :اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادروں کے دامن لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانک لیا کریں (تفسیر ابن جریر :ج 22،ص 29) غض بصر کا مفہوم
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّواْ مِنْ أَبْصَٰرِهِمْ وَيَحْفَظُواْ فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرٌۢ بِمَا يَصْنَعُونَ الخ (سورہ نور :30، 31
حجاب کے تعلق سے اللہ رب العزت نے توازن و اعتدال کو قائم رکھتے ہوئے مردوں اور عورتوں کو جو حکم دیا ہے وہ غض بصر کا ہے عموماً اس لفظ کا ترجمہ “نظریں نیچی رکھو” یا نگاہیں پست رکھو “کیا جاتا ہے مگر اس سے پورا مفہوم واضح نہیں ہوتا اس کا مطلب ہے کہ اس چیز سے پرہیز کرو جس کو حدیث میں آنکھوں کی زنا کہا گیا ہے اجنبی عورتوں کے حسن اور ان کی زینت کی دید سے لذت اندوز ہونا مردوں کے لئے اور اجنبی مردوں کو مطمح نظر بنانا عورتوں کے لیے فتنے کا موجب ہے، فساد کی ابتدا طبعا و عادتا یہیں سے ہوتی ہے اس لیے اولا اسی دروازہ کو بند کیا گیا ہے اور یہی غض بصر کی مراد ہے ظاہر ہے کہ اس میں بھی اچانک نظر پڑنا اس سے مستثنیٰ ہے حجاب کے ان احکامات و تعلیمات سے قطعا یہ مراد نہیں ہے کہ عورت کو بالکل حدود و قیود میں جکڑ کر رکھا جائے بلکہ جو اسلامی تعلیمات ہے وہ بھت آسان و متوازن ہے ان کو ہم نے اپنے رسوم و رواج، خاندانی أقدارو روایات مرد کی قوامیت کے غلط مفہوم نے ان کو بے جا پیچیدہ کر دیا ہے
اس کی ابتدا مرد و عورت کو بچپن سے ہی کی جائے ان کی ایسی ہی تربیت کی جائے اور صحیح احکامات پر عمل پیراں کیا جائے فرسودہ خیالات اور خاندانی دقیانوسی کو مسلط نہ کیا جائے قابل مبارکباد ہے وہ بہنیں جنھوں نے اپنے حقوق کو سلب ہونے سے بچالیا اور اس کے لیے جھد مسلسل کرتی ہیں اور عزم بالجزم کا ثبوت دیا
کہا جاتا ہے کہ اگر کسی قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو اور اس کی انفرادیت کو ختم کرنا ہو تو اس قوم کے لباس، زبان اور رسم الخط کو تباہ و برباد کردو قابل آفریں ہیں وہ بہنیں جنھوں نے اپنے تشخصات و شعائر کو قائم رکھتے ہوئے اپنی انتھک کوششیں جاری رکھی اس کے لیے ہم کو نسل نو پر مزید محنت درکار ہے تبھی صالح معاشرہ کی تشکیل ممکن ہے

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS