زرعی قوانین کی واپسی پر تذبذب برقرار!

0

ملک بھر کے کسانوں کے ایک سال سے زیادہ عرصہ تک مسلسل دھرنا، مظاہرہ و جدو جہد کے بعد بالآخرمرکزی حکومت کو تینوں نئے زرعی قوانین واپس لینے پڑے، لیکن اس واپسی پر تذبذب برقرار ہے۔یہ تذبذب کئی طرح سے ہے۔ پہلا یہ ہے کہ قوانین واپس ہوئے ہیں یا انہیں پھر کیا انہیں دوبارہ نافذ کیاجائے گا؟ کیونکہ حکومت کے نمائندے، وزراء اور پارٹی لیڈران متواتر اس بات پر زور دے رہے ہیںکہ قوانین کسانوں کے حق میں تھے ، ان سے فائدہ ہوتا ، انہیں پھر واپس لایاجائے گا۔ بات عقل میں آنے والی ہے کیونکہ جو حکومت اور اس کے اعلیٰ دماغ لوگ جن قوانین کے فائدے گنواتے ہوئے نہیں تھک رہے تھے وہ بھی متعجب ہیں کہ راتوں رات وزیراعظم نے ان کی واپسی کا اعلان کیوں کر دیا۔ اب وہ قوانین کے فائدہ بتائیں یا وزیراعظم کے ذریعہ انہیں واپس لئے جانے کے فوائد پر تبصرہ کریں؟ کسان اسے اپنی فتح و کامیابی سمجھیں یا حکومت کی ایک قدم پیچھے ہٹنے کی پالیسی۔یا پھر اترپردیش، پنجاب، اتراکھنڈ، گوا سمیت پانچ ریاستوں میں عام اسمبلی انتخابات کے پیش نظر کسانوں کی ناراضگی سے بچنے کے لیے وقتی طورپر اٹھایاگیا قدم۔ یہ تمام وہ نکات ہیں جو ہر زاویہ سے درست نظر آرہے ہیں۔لیکن ایک بات تو بہت واضح سمجھ میں آرہی ہے کہ حکومت نے زرعی قوانین کوو اپس لے کر ناراض کسانوں کو خوش کرنے اور آئندہ اسمبلی انتخابات میں ان کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اسمبلی انتخابات ہیں اور مرکزی حکومت ابھی 2024 تک برسراقتدار رہے گی۔
ا سمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد مرکزی حکومت پھرانہیں نافذ العمل کرسکتی ہے، اس کے اشارے اسی روز سے ملنے لگے تھے، جس دن وزیراعظم نے نئے زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیاتھا، قیاس آرائیاں کی جانے لگی تھیں، وزیراعظم کے قول کا بھروسہ کیسے کیاجائے؟ الیکشن سے قبل کئے گئے وعدے تو وفا نہیں ہوئے، لہٰذا حکومت نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں ان قوانین کو باضابطہ واپس لے لیا، لیکن انہیں دوبارہ نافذ کرنے کا درو ازہ تو بند نہیں ہوا ۔ وقتاً فوقتاً مرکزی حکومت کے نمائندے اس پر گفتگو کرتے رہے ہیں۔ اب تو مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر نے ناگپور (مہاراشٹر) میں ایک پروگرام میں کہہ دیا ہے کہ زرعی قانون 70 سال کی آزادی کے بعد لایاگیاسب سے بڑا ریفارم تھا، لیکن کچھ لوگوں کی مخالفت کے بعد اسے واپس لینا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک قدم پیچھے ہٹے ضرور ہیںلیکن دوبارہ آگے بڑھیں گے۔ حکومت آگے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ ہم مایوس نہیں ہیں۔ دراصل کسان ہندوستان کی ریڑھ ہے۔ مرکزی وزیر زراعت نریندر تومر نے اس طرح کا عندیہ دیا ہے کہ وہ ان قوانین کو مستقبل میں واپس لائیں گے۔ مرکزی وزیر زراعت نے متنازع قوانین کی واپسی کے لئے کچھ لوگوں کو قصوروار قرار دیتے ہوئے کہاکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں یہ ایک بہترین قدم تھا لیکن حکومت مایوس نہیں ہے۔ قوانین واپسی سے قبل وزیر اعظم مودی اور وزیر زراعت نریندر تومر سمیت تمام بی جے پی لیڈران ان زرعی قوانین کا دفاع کر رہے تھے لیکن حکومت کے ذریعہ اچانک فیصلہ لینے سے سوال اٹھنے لگے۔ حزب اختلاف نے اس قدم کو انتخابات کے پیش نظراٹھایا گیاقدم قرار دیا۔ قوانین کی وا پسی کے سلسلہ میں جو خدشہ پہلے روز ظاہر کیاگیاتھا اس کو تقویت ملتی جارہی ہے ، کیونکہ جن سرمایہ داروں نے کسانوں کی فصلوں کو کھلے بازار میں خرید کراسٹور کرنے کے انتظامات کررکھے ہیں ان کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسمبلی انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں، بی جے پی کو اترپردیش، اتراکھنڈ اور گو ا میں حکومت پھر سے بنانے کا موقع ملے یا نہ ملے، لیکن مرکزمیں 2024تک بی جے پی کاموجودہ اقتدار رہتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ زرعی قوانین معمولی و جزی ترمیم و اضافہ کے ساتھ ایک بار پھرپارلیمنٹ میں پیش کرکے انہیں نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ کسان اس امکان سے باخبر اور فکر مند ہیں ۔اسی لیے کسان لیڈران کی جانب سے بار بار اس بات کا اعلان اور اظہار عزم کیاجارہا ہے کہ وہ آگے بھی اس طرح کے کسی بھی نقصان دہ قوانین و پالیسی کے خلاف نبردآزمائی کے لیے تیار ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے کسانوں کی تحریک اور دہلی کی سرحد پر متواتر دھرنے مظاہرے سے جو نقصان ہوا ہے اور جس طرح کی پریشانی عوام کو اٹھانی پڑی ہے اس کا مجموعی اثر حکومت پر لازمی طورپر پڑا ہے، ملک کی آمدنی میں کسانوں کی آمدنی و خوشحالی کا ایک بڑا حصہ شامل ہے۔ اگر ملک کے کسان پریشان ہیں یا حکومت کی کسی پالیسی کے خلاف وہ احتجاج کرتے ہوئے اپنا نقصان کررہے ہیں توگویا وہ حکومت وملک کا نقصان بھی ہوگا، اس لیے حکومت کو اس جانب توجہ مرکوز کرتے ہوئے ابھی سے ان خدشات پر قدغن لگاناچاہئے اور اپنا موقف واضح کرنا چاہئے کہ مستقبل قریب یا بعید میں زراعت سے متعلق کوئی نیا قانون نہیں نافذ کیاجائے گا، حکومت کے وزرا ء یا پارٹی لیڈران کی بیان بازی پر بھی قدغن لگایا جانا چاہئے ، ورنہ عوام میں تاثر توجاہی رہا ہے کہ وزیراعظم بھلے ہی کچھ نہ کہہ رہے ہوں ان کی کابینہ کے وزیر اور پارٹی لیڈران حکومت و پارٹی کے منصوبوں کا عوامی طورپر وقتاً فوقتاً جواظہار کررہے ہیں وہ در اصل وزیراعظم اور حکومت کی منشاء کے عین مطابق ہے۔ lrt
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS