شکر گزاری و حق پرستی

0

ڈاکٹرحافظ کرناٹکی

انسان مختلف اور متضاد عناصر کا مجموعہ ہے، اس میں خیر کا مادہ پایا جاتا ہے تو شر سے بھی خالی نہیں ہے۔ محبت کے جذبے سے سرشار ہے تو نفرت کے جذبے کا بھی خوگر ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ انسانی فطرت اچھے اور برے رویوں اور اچھی اور بری خصلتوں اور عادتوں سے بھری پڑی ہے۔ انسان کے اندر جو بہت سارے اچھے رویے اور اچھی عادتیں پائی جاتی ہیں ان میں صلہ رحمی، محبت، خدمت، اور شکرگزاری کے جذبے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ آئیے پہلے جذبۂ تشکر پر تھوڑی گفتگو کرلیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب انسان کے اندر جذبۂ تشکر پایا جاتا ہے وہ بہت مطمئن اور خوش و خرم ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ جذبہ معدوم ہونے لگتا ہے تو انسان کے اندر سے اطمینان کی کیفیت ختم ہونے لگتی ہے۔ بے چینی بڑھ جاتی ہے، اور حزن و ملال جگہ بنانے لگتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ شکرگزاری کا جذبہ اس وقت انسان کے اندر دم توڑنے لگتا ہے جب اس کے اندر حرص کا جذبہ بڑھنے لگتا ہے۔ ویسے یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ شکر گزاری جہاں مثبت طرز عمل کو فروغ دیتی ہے وہیں ناشکری انسانی فطرت کا وہ منفی رویہ بن کر ابھرتی ہے جس سے اکثر اوقات دوسروں کو بھی تکلیف پہونچتی ہے۔ اور خود ناشکرا بھی حزن و ملال کا شکار ہوجاتا ہے اور تفکر ، اندیشہ ہائے دور دراز اور طمع کی وجہ سے بہت ساری نیک عادتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔قرآن کریم نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے؛’’اگر تم شکر کا رویہ اپناؤ گے تو میں مزید نوازوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو جان لو کہ میرا عذاب شدید ہے۔‘‘ (ابراہیم)
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بعض سخت مصائب اور مسائل میں گرفتار ہوجاتا ہے اور اپنی مشکلوں، تکلیفوں اور آزمائشوں سے گھبراکر نا شکری کے الفاظ بول جاتا ہے۔ لیکن بہت توجہ سے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ عام طور پر ناشکری کا جذبہ احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا پھر دوسروں سے اپنا موازنہ کرنے سے ناشکری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کی کیفیت کو نفسیاتی بیماری سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ بیماری نفسیاتی، جسمانی، یا روحانی ہو وہ بہرحال انسان کے لیے مضر ہوتی ہے اس لیے اسے دور کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے۔
شکر گزاری کا جذبہ عمدہ اور بہترین صحت کا راز ہے۔ اس جذبے کی وجہ سے انسان کو اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے، اور سچ پوچھئے تو جذبۂ شکر سے ہمارے بہت سارے مسائل بھی حل ہوجاتے ہیں۔ خدا اور خدا کے بندوں سے ہمارے تعلقات کی نوعیت بھی خوشگوار بن جاتی ہے۔ جن لوگوں کے اندر شکرگزاری کا مادہ ہوتا ہے اس کے اندر صبر و تحمّل بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے پاس اللہ کی دی ہوئی جو نعمتیں اور قوّتیں ہوتی ہیں وہ اس پر مطمئن ہوتا ہے اور اس کے لیے اللہ کا شکر گزار ہوتا ہے۔ وہ ان نعمتوں کی قدر کرتا ہے۔ اس کے استعمال میں کفایت شعاری اور قناعت سے کام لیتا ہے۔ جس کی برکت سے اس کی خواہشوں کا بوجھ کم ہوجاتا ہے اس کے علاوہ بھی اگر مزید نعمتیں یا مزید مواقع میسر آجاتے ہیں تو وہ شکرگزاری کے جذبے سے لبریز ہوجاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنا موازنہ کبھی کسی دوسرے سے نہیں کرتے ہیں یہی عادت انہیں ایک الگ پہچان بخشتی ہے۔ اس کی شخصیت کی انفرادیت کو واضح کرتی ہے۔
ناشکرے لوگ کبھی بھی اپنی ترقی اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں۔ وہ اکثر شکوہ شکایت کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ ہزار طرح کی نعمتیں ملنے کے باوجود ھل من مزید کے غم میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور جب بھی انہیں لگتا ہے کہ مزید کا سلسلہ ختم ہوتا جارہا ہے تو وہ ناشکری کے گناہ اور بے چینی کے عذاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنی ذات کا دوسروں سے موازنہ کرنے کی لت پڑجاتی ہے وہ اپنی زندگی کا سکون اور راحت دوسروں کی تکلیف اور شکست میں تلاش کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے اندر حسد کی آگ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے خیالات پراگندہ اور منشتر ہوتے ہیں۔ وہ بہ یک وقت ایک ہی انسان کی تعریف اور تنقیص کے مخمصے میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اضطراب اور گھبراہٹ کی وجہ سے پرسکون نیند سے محروم ہوجاتے ہیں۔
شکر گزار لوگوں میں انکساری ہوتی ہے، وہ بات بات پر لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جزاک اللہ، اور جزاکم اللہ جیسے الفاظ ان کی زبان پر جاری رہتے ہیں۔ جبکہ ناشکرے لوگوں میں ایک خاص طرح کی اکڑ پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ لوگوں کا شکریہ ادا کرنے میں توہین محسوس کرتے ہیں۔ ایمان والوں سے کہا گیا ہے کہ شکر کا سب سے بڑا حقدار ہمارا رب ہے، جس نے بغیر مانگے ہمیں بے شمار نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے؛’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے، بے شک انسان بڑابے انصاف اور ناشکرا ہے۔‘‘ (ابراہیم)
ہمارے نبیؐ نے جہاں ہمیں رب کا شکرگزار ہونے کا درس دیا ہے وہیں انسانوں کے لیے بھی شکرگزاری کے جذبے کو فروغ دینے کی تلقین کی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ انسان ہمارے شکریے کا حقدار ہے جو ہمارے ساتھ کسی بھی قسم کا احسان کرتا ہے، اللہ کے رسولؐ نے بندوں کے لیے جذبۂ شکر گزاری کو براہ راست اللہ کی شکرگزاری سے جوڑاہے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ؛’’جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکربھی ادا نہیں کرے گا۔ ناشکری ایمان والوں کو زیب نہیں دیتی ، مومن تو ہر حال میں اللہ کا شکرگزار ہوتا ہے۔ شکرگزاری ایمان کا حصّہ ہے۔ ایمان جتنا مضبوط ہوگا بندہ اتنا ہی زیادہ شکرگزار ہوگا۔
محبت و نفرت: محبت اور نفرت انسانی فطرت اور اس کی نفس کی دو ایسی خصوصیات ہیں جو بہ یک وقت انسان کے اندر موجود اور کارفرمارہتی ہیں۔ جو انسانی فطرت پر بڑی قوّت سے اثر انداز ہوتی ہیں۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ انسان اپنی ذات، اپنے وجود اور اپنے نام سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ سب سے نمایاں، منفرد، ممتاز، طاقتور، غالب آجانے والا، چھاجانے والا، اور مال وقوت کا مالک ہو۔ وہ بہت سی آسائشیں اور بے شمار نعمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لے، ساری دنیا اسے سرآنکھوں پر بٹھائے، لوگ اس کی تعریفیں کریں، وہ چاہتا ہے کہ حسن و صحت کے ساتھ وہ بڑی عمرپائے اور ساری کائنات کا مرکز بن جائے اور جو بھی شخص یا جو بھی چیز اس کے اس مقام میں حارج ہوتی ہے اس سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔خالق کائنات اپنی کتاب میں صاف صاف اپنے بندوں سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر تم نے ہمارے بھیجے ہوئے رسول کی ہدایت کے مطابق اپنا رویہ درست کرلیا اور ایمان لاکر عمل صالح کی راہ اختیار کی تو ہم تمہیں حیات طیبہ بسر کرائیں گے اور آخرت میں تمہارے بہترین اعمال کے مطابق تمہیں بہترین صلہ عطا کریں گے۔
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور آخرت میں ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔‘‘ (النحل)
معلوم یہ ہوا کہ اسلام میں شکرکا، محبت کا، نفرت کا، اور حق گوئی و راہ راست کا بہت ہی اہم مقام ہے۔ جو لوگ اللہ کے لئے زندگی سے محبت کرتے ہیں، اللہ کے لئے شر سے نفرت کرتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے شاکر بنے رہتے ہیں ان کے لئے دونوںجہاں کی کامیابی ہے۔
حضرت رابعہ بصریہؒ اللہ کی سچی ولیہ تھیں۔ اپنے زمانے کے بڑے بڑے ولی اور صوفیاء ان کی مجلس میں کچھ سیکھنے کے لئے جایا کرتے تھے۔ ان بڑے بزرگوں اور ولیوں میں ذوالنون مصریؒ بھی شامل تھے۔ ایک دن وہ حضرت رابعہ بصریہؒ کی مجلس میں اس حال میں آئے کہ ان کے سرمیں پٹی بندھی ہوئی تھی۔ رابعہ بصریہؒ نے پوچھا ذوالنون یہ کیا ہے؟ کہنے لگے سرمیں درد ہورہا ہے، اس لیے میں نے پٹی باندھی ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ درد کب سے ہورہا ہے؟ جواب دیا کہ بس ابھی دودن ہوئے ہیں۔ حضرت رابعہ بصریہؒ نے فرمایا جب تونے پٹی باندھی ہے تو ظاہر ہے کہ لوگ تجھ سے پوچھتے بھی ہوں گے کہ کیا ہواہے؟ اور پٹی کیوں باندھ رکھی ہے؟ اور پھر تو لوگوں کو بتاتا بھی ہوگا کہ سر میں درد ہے؟ عرض کیا ہاں میں پوچھنے پر لوگوں کو بتاتا ہوں کہ سر میں درد ہے۔ اس استفسار کے بعد انہوں نے پھر ایک اور استفسار کیا پوچھا کہ ذوالنون کتنے دنوں کے بعد یہ درد ہوا ہے؟ کہا دس سالوں کے بعد ہوا ہے۔ دس سال میں کبھی سر میں درد نہیں ہوا تو انہوں نے کہا کہ ذوالنون دس سال تک تمہارے سر میں درد نہیں ہوا تو تم نے کبھی شکر کی پٹی نہیں باندھی تاکہ تم لوگوں کو بتاتے کہ اللہ کا شکر ہے سر میں درد نہیں ہے اور بس دودن سے سر میں درد ہورہا ہے تو شکایت کی پٹی باندھ رکھی ہے۔ اور ہر کسی سے شکایت کرتے پھرتے ہو کہ سر میں درد ہے، آخر دس سالوں تک شکر کی پٹی بھی باندھی ہوتی۔ ذوالنون مصریؒ نے لکھا ہے کہ اس کے بعد میں کبھی بیمار بھی ہوا تو میں نے کبھی کسی بیماری کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا۔ کسی قریبی دوست سے بھی شکایت نہیں کی۔اللہ کے نیک بندے جو ہر حال میں اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں وہ اپنے رب کا شکوہ نہیں کرتے ہیں۔ وہ عیش میں مست اور تکلیف میں پست نہیں ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اعتدال، اور توازن سے کام لیتے ہیں۔ اسی لیے اسلام میں میانہ روی پر زور دیا جاتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سبھوں کو شکرگزار بندوں کی صفات سے آراستہ فرمائے۔آمین۔

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS