آخرت کا جھٹلانا بےایمانی و سرکشی کی اصل وجہ

0

مولانا عبدالحفیظ اسلامی

ہر انسان کو ایک دن مرنا یقینی ہے،ٹھیک اسی طرح دوبارہ زندہ ہوکر اپنے رب کے سامنے پیش ہونا بھی ایک امر حقیقت ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن حکیم یوں ذکر کرتا ہے:(ترجمہ) ان سے کہو،اللہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم سمیٹے جائو گے۔ یعنی کہ ہر آدمی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے زمین کے ہر گوشہ سے گھیر کر لایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر کردیا جائے گا۔
اسلامی تعلیمات میں تصور آخر ت یا زندگی بعد الموت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے کیونکہ یہی ایک ایسی چیز ہے جو کہ انسان کو راہ راست پر قائم رکھنے میں معاون و مددگار ہوتی ہے۔
عقیدے توحید و رسالت کے بعد عقیدے آخرت جتنا مضبوط ہوگا انسان اپنے ارتقائی منازل کو طئے کرتے ہوئے اللہ رب العزت کا محبوب بندہ بن جاتا ہے اور جو شخص اس اہم عقیدے کو فراموش کردیتا ہے یا اس کا انکار کر بیٹھتا ہے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتا ہے اور مغضوب و ظالین کے فہرست میں شامل ہوجاتا ہے۔
قرآن حکیم کی تعلیمات اور رسول اللہؐ کے ارشادات گرامی میں فکر آخرت پر بہت زیادہ زور اس لئے دیا گیا ہے کہ جتنی بھی قومیں بگڑی ہیں اور تباہی و بربادی جن کا مقدر بن چکی ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہو ںنے زندگی کے شب و روز خدا کے سامنے جوابدہی کے احساس سے خالی ہوکر گزاری تھیں اس طرح ان کی دنیا بھی تباہ ہوکر رہی اور آخرت کا خسران جو کہ ہمیشہ ہمیشہ کا نقصان ہے اس سے دو چار ہونا پڑا انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو طاقت و قوت اور صلاحیت عطا فرمائی ہے،مال و دولت اور اقتدار سے جو نوازا گیا ہے اور دنیوی زندگی میں جو کچھ آزادی دے رکھی ہے الغرض جو کچھ بھی نعمتیں اسے حاصل ہورہی ہیں اس کا اْس وقت تک صحیح استعمال ہوتے رہتا ہے جب تک کہ وہ اپنے منعم حقیقی کے سامنے جوابدہی کا احساس اور اس سے ڈر کر زندگی گزارتا ہے۔ اس طرح فکر آخرت اور جوابدہی کا احساس اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے کھڑے ہونے اور اپنی زندگی کے تمام معاملات کا حساب دینے کے تصور کے ساتھ جو زندگی گزرتی ہے وہ ہمیشہ راہ نجات پر گامزن رہتی ہے جو نتیجہ کے لحاظ سے دنیوی راحت اور اخروی شادمانی کی ضمانت ہے۔ بر خلاف اس کے اگر انسان زندگی بعد الموت کو فراموش کردے اور اپنے آقا کے سامنے جوابدہی کے احساس کے بغیر زندگی گزار نے لگے تو پھر اس سے ایسے ایسے کام اور ایسے جرائم کا ارتکاب ہونے لگتا ہے جسے دیکھ کر شیطان جھوم اٹھتا ہے۔ خواہ حقوق اللہ کی ادائیگی کی انجام دہی ہو یا حقوق العباد کے معاملات ہوں ان ساری چیزوں میں انسان اعتدال کی شاہراہ کو گم کردیتا ہے اور اللہ کے سامنے مجرم بن کر پیش ہوتا ہے۔ انسان کی یہ سراسر بے انصافی ہے کہ وہ اپنے خالق کے احسانات کی ناقدری کرتا ہے اور نا شکرانہ طرز حیات کو اختیار کرتا ہے حالانکہ اس کا مالک نے اسے نازک مراحل سے حفاظت سے گزار کر جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے اس کی تخلیق کی اور اس کا مزید کرم اس پر یہ ہوا۔ اور ہورہا ہے) کہ قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا اور انسان کو وہ علم کی دولت سے مالا مال کیا جو وہ جانتا نہ تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ انسان کو ایک حقیر ترین حالت سے نکال کر ساری مخلوقات میں اشرف مقام پر پہنچا دیا گیا لیکن اپنے محسن کا نا شکرا بنا رہا ؟اس کی اصل وجہ قرآن حکیم میں یوں بیان کی گئی ہے (ترجمہ) ہر گز نہیں، انسان سرکشی کرتا ہے اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے۔ (حالانکہ ) پلٹنا یقینا تیرے رب ہی کی طرف ہے۔ آیات مذکورہ بالا سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ انسان جو کچھ سرکشی کرتا ہے وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہوئے کرتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بے لگام ہوکر حدود بندگی سے آگے نکل جاتا ہے۔ اگر انسان اس بات پر اچھی طرح یقین کرلے کہ اسے ایک دن اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانا ہے تو اس کی حالت ایسی نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کی عطا کردہ تمام نعمتوں کا صحیح استعمال کرتا اور سرکشی و بے بندگی کی زندگی سے اجتناب کرتا۔ اس سلسلہ میں محترم پیر محمد کرم شاہ الازہری نے بہت خوب تحریر فرمایا ہے۔ ’’پہلے تو یہ بتایا کہ کم ظرف انسان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ جب اس کے پاس مال و دولت کی فراوانی ہوجاتی ہے اور ایک طاقتور جتھا اس کا فرما بردار بن جاتا ہے وہ، اپنے آپ کو اپنے رب سے بھی مستغنی سمجھنے لگتا ہے گویا اس نے اپنے خدا سے جو کچھ لینا تھا لے لیا۔ اب اسے اس کی (العیاذ باللہ) کوئی ضرورت نہیں اور جب اس کی یہ کیفیت ہوجاتی ہے تو وہ سرکشی اختیار کرتا ہے۔ نہ اسے اللہ تعالیٰ کے کسی فرمان کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس کے بھیجے ہوئے رسول کے ارشادات کو وہ قابل اعتنا سمجھتا ہے، جو اس کے جی میں آتا ہے کر گزرتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ ہفت کشور کا سلطان (ساری دنیا کا سلطان) بھی بن جائے اگر دنیا بھر کی دولت بھی جمع کرلے تو پھر بھی وہ ایک بے بس انسان ہے۔ جب اس کی موت کا وقت آئے گا تو فرشتہ اجل اس کی اکڑی ہوئی گردن مروڑ کر رکھ دے گا اور آخر کار اسے اس کے پروردگار کے دربار میں جواب دہی کیلئے پیش ہونا پڑے گا۔ اس وقت اس کو اپنی ناتوانی اور بے نوائی کا احساس ہوگا۔ قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے سے ہمارے سامنے یہ بات واضح ہوکر آتی ہے کہ خوف آخرت کے فقدان سے انسان کی گمراہی کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS