نئی دہلی:کانگریس نے جمعہ کو سرکار پر منافع میں چلنے والے پبلک سیکٹر کے یونٹوں کو کمزور کر کے انہیں فروخت کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ نریندر مودی سرکار کو اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر راجیو شکلا اور ترجمان گورو ولبھ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سرکار کے پاس کوئی اقتصادی ماڈل نہیں ہے۔
شکلا نے اخباری نمائندوں سے کہا کہ ’اس سرکار کا اقتصادی ماڈل سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ اگر سرکار خزانہ خالی ہے تو ساری چیزوں کے دام بڑھا کر اسے بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہماری سرکار کے وقت بین الاقوامی بازار میں خام تیل کی قیمت 115 ڈالر فی بیرل تھی تو پٹرول 68 روپے فی لیٹر مل رہا تھا لیکن آج خام تیل کی قیمت 60 ڈالر فی بیرل ہے تو پٹرول 100 روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا ہے۔ اس پر کوئی نہیں بول رہا ہے۔ وہ اداکار بھی نہیں بول رہے ہیں جو کانگریس کی سرکار میں بولتے تھے۔‘ شکلا نے دعویٰ کیا کہ سرکار منافع میں چلنے والی پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کو فروخت کر رہی ہے۔ اگر اسی طرح سرکاری جائیدادوں کو فروحت کیا گیا تو سرکار صرف دہلی میں نارتھ بلاک اور ساؤتھ بلاک تک محدود ہو جائے گی۔‘ انہوں نے کہا کہ ’سرکار کو منافع والی کمپنیوں کو فروخت کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان کو فروخت کرنے کے بجائے انہیں مضبوط کیاجانا چاہیے۔‘
گورو ولبھ نے شپنگ کارپوریشن آف انڈیا اور کچھ دیگر پی ایس یو کا ذکر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’اس سرکار نے پی ایس یو کی سیل لگائی ہے۔ وہ ان کمپنیوں کوفروخت کر رہی ہے جن جو سابقہ سرکاروں کے وقت کھڑا کیا گیا تھا۔ اس سرکار کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے۔ اس کے پاس آمدنی کا وسیلہ صرف سرکاری کمپنیوں کی فروخت اور پٹرول، ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھانا ہے۔‘ کانگریس ترجمان نے کہا کہ ’یو پی اے سرکار کے 10 سال میں پی ایس یو کی سرمایہ کشی سے مجموعی طور پر 1.14 لاکھ کروڑ روپے جمع ہوئے جبکہ مودی سرکار نے 5 سال میں 2.80 لاکھ کروڑ روپے پی ایس یو میں سرمایہ کشی کر کے یا پھر فروخت کر کے جمع کیے۔‘ انہوں نے سوال کیا کہ ’کیا سرکار پی ایس یو کو جان بوجھ کر کمزور کر رہی ہے؟ کیا اس کے پاس کوئی دوسرا اقتصادی ماڈل نہیں ہے؟ کیا سرکار نج کاری کا کام کسی ایجنڈے کے تحت کر رہی ہے؟‘

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS