ووہرا کے بعد مرمو کی اچانک تبدیلی،ایسے واقعات کے بعد جموں کشمیر کے راج بھون کی وقعت ہی کیا رہ گئی ہے؟

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    جموں کشمیر کیلئے پہلے لیفٹننٹ گورنر جی سی مرمو کی اچانک تبدیلی کی اصل وجوہات کیا ہیں،معلوم نہیں ہیں لیکن اس حوالے سے جتنے منھ اتنی باتیں والا معاملہ ہے۔البتہ سب سے اہم وہ انداز ہے کہ جو حکومتِ ہند جموں کشمیر میں اپنے نمائندوں کی تبدیلی کے حوالے سے اپناتی آرہی ہے۔ سابق ریاست کے گورنر این این ووہرا کے بعد جس انداز سے جی سی مرمو کو بھی اچانک اور غیر متوقع طور تبدیل کیا گیا ہے وہ ان شخصیات کیلئے ہی نہیں بلکہ انکے منصب کے تئیں بھی تذلیل آمیز ہے۔
    5 اگست کو جب جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اسے ریاست سے یونین ٹریٹری بنائے جانے کی پہلی سالگرہ پر یہاں بے چینی کی ہوائیں اڑ رہی تھیں لیفٹننٹ گورنر جی سی مرمو کے ہٹائے جانے کی وٹس ایپ پر ’’افواہیں‘‘  رواں ہوگئیں۔ جیسا کہ اکثر کشمیر میں اڑنے والی افواہوں کے ساتھ ہوتا ہے،یہ رات گئے تب سچ ثابت ہوگئیں کہ جب جی سی مرمو نے استعفیٰ دیا اور اگلی ہی صبح وہ کسی تقریب کے انعقاد کے بغیر ہی اپنی تعیناتی کے کوئی نو ماہ بعد دلی کیلئے جہاز میں بیٹھ چکے تھے۔
    گذشتہ سال 31 اکتوبر کو جس طرح اُسوقت کے گورنر این این ووہرا کے یونہی اچانک ہٹالئے جانے پر جی سی مرمو نے آکر کرسی سنبھالی تھی ٹھیک اسی طرح مرمو کے چلے جاتے ہی انکے جانشین  کے بطور بی جے پی کے سینئر لیڈڑ منوج سنہا نے سرینگر میں اپنے قدم ڈالدئے تھے۔
    جیسا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا بھی ہے،جی سی مرمو اور این این ووہرا کے انکے عہدوں سے ہٹائے جانے کے انداز میں بڑی مماثلت اور مشابہت دیکھی گئی۔ مرمو کو ہٹا لئے جانے کے بارے میں انکے جموں کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے میں ناکام ہونے سے لیکر بیروکریسی کے ساتھ تال میل نہ بناپانے تک کئی وجوہات بتائی جارہی ہیں جن پر کلام کیا جاسکتا ہے لیکن سب سے اہم بات انکا اچانک ہٹا لیا جانا ہے۔ مبصرین کے مطابق جس انداز سے مرکزی وزارتِ داخلہ جموں کشمیر میں اپنے نمائندگان کی تزلیل آمیز تبدیلی کرتی آرہی ہے اس سے نہ صرف ان شخصیات کا بلکہ یہاں کے راج بھون کا وقار بھی مجروح ہوجاتا یے۔
    آئینی معاملات پر دسترس رکھنے والے ایک وکیل کا ،انکا نام نہ لئےجانے کی شرط پر،کہنا ہے ’’جس طرح ان لوگوں کو اچانک ہی اور راتوں رات تبدیل کردیا جاتا ہے اس سے خود ان ہی کے غیر اہم ہونے کا تاثر نہیں ملتا ہے بلکہ راج بھون کے وقار پر بھی سوالیہ لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووہرا اور اب جی سی مرمو کو سرکاری محکموں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے معمولی ملازمین کی طرح نکالا گیا ہے جس سے کشمیر جیسے حساس علاقے میں ایک اچھا تاثر نہیں ملتا ہے۔ سیول سکریٹریٹ کے ایک افسر کا بھی اسی طرح کا تاثر ہے اور وہ کہتے ہیں ’’ایک تو جموں کشمیر جیسی جگہ کیلئے محج نو ماہ بعد لیفٹننٹ گورنر کی تبدیلی کوئی اچھی بات نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ جس تذلیل آمیز انداز میں مرمو کو نکالا گیا ہے اس سے کشمیریوں میں پہلے سے موجود یہ تاثر مزید مستحکم ہوسکتا ہے کہ کشمیر میں تعینات گورنر یا لیفٹننٹ گورنر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ جب جموں کشمیر کے راج بھون کے بارے میں یہ تاثر دیا جارہا ہو تو پھر اس سے سیاسی سرگرمیوں کی شروعات اور اس جیسی چیزوں کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ عام لوگ بھی کچھ اسی طرح کی رائے رکھتے ہیں۔ محمد اقبال نامی ایک تاجر کہتے ہیں ’’پہلے تو بس کہا ہے جاتا تھا کہ کشمیر میں سب دلی کے کٹھ پُتلی ہیں اب ہم ان چیزوں کا از خود مشاہدہ بھی کر رہے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ حکومتِ ہند نے کشمیریوں کی ہی نہیں بلکہ کشمیر سے وابستہ ان لوگوں کی بھی تزلیل کرنے کی قسم کھا رکھی ہے کہ جو خود اسکے اپنے ہی کل پُرزے ہیں‘‘۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS