آزادیٔ اظہار رائے یا بے لگام آزادی؟

0

علیزے نجف
بیشک آزادی ایسی نعمت ہے جس کا کوئی متبادل نہیں، آزادی انسان کی فطری ضرورت میں شامل ہے خود خالق کائنات نے انسان کو یہ آزادی بخشی ہے کہ وہ چاہے تو اس کی ربوبیت پہ ایمان لائے چاہے تو اس کا انکار کرے یعنی اس سے متضاد دوسری راہ اپنائے، اور اس کے اندر خیر و شر کا شعور پیدا کر کے اسے فیصلہ کرنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا ہے ، لیکن اس آزادی کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان مسلّمہ اصولوں سے ماورا ہو کر سرکشی کی راہ پہ چل پڑے اور معاشرے میں انتشار پیدا کرنے کا باعث بنے، اس وقت دنیا میں آزادیٔ اظہار رائے کے نام پہ مذہب خصوصا اسلام کے مقدسات کی بے حرمتی کا جو سلسلہ چل نکلا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے، مغربی ممالک اس کے لئے جس طرح کے جواز تراشتے رہتے ہیں حقیقت کی بساط پہ وہ درحقیقت سرکشی کی ہی ایک شکل ہے جسے انسانی ضمیر کبھی قبول نہیں کر سکتا۔
پچھلے دنوں یہ خبر سامنے آئی کہ ناروے میں کچھ لوگ قرآن کی بے حرمتی کی خاطر جمع ہوں گے اس سے چند دنوں پہلے سویڈن میں اسلام مخالف سویڈش ڈینش سیاست داں راسمس پالوڈن نے آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پہ قرآن کو نذر آتش کیا، ڈنمارک اور سویڈن کی دہری شہریت کے حامل اسلام مخالف سیاست دان راسموس پالوڈن نے پہلے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک مسجد کے قریب قرآن کو نذرِآتش کیا، پھر ترک سفارت خانے کے باہر بھی ایک جلد کو نذرِ آتش کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ اس نے ایسا ترکیہ کو نیچا دکھانے کے لئے کیا ہے، نیٹو میں شامل ہونے کے لئے اس جذباتی ہتھکنڈے کا استعمال کر کے وہ ترکیہ کو زیر کرنا چاہتا ہے، جو کہ انتہائی گھٹیا عمل ہے سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا استعمال کرنا ذہنی پستی کی علامت ہے کیوں کہ اس دنیا میں مسلمان صرف ترکیہ میں ہی نہیں رہتے بلکہ ان ممالک میں بھی رہتے ہیں جن کی حمایت انھیں حاصل ہے، ملکی مفاد کے لئے عوامی جذبات کو برانگیختہ کرنا ایک سطحی عمل ہے، اس طرح کی سرکشی کے پیچھے کئی سارے عوامل ہیں جن کے زیر سایہ ایسی ذہنیت پروان چڑھ رہی ہے۔
بدقسمتی سے اس غیر اخلاقی اور ناقابلِ قبول سرکش عمل کے بار بار دہرائے جانے کا سلسلہ دراز ہوتا ہی جا رہا ہے، اس سے نہ صرف اسلام بلکہ عالمی امن کو بھی خطرہ پہنچ سکتا ہے دنیا بھر کے انسانوں کے ہاتھوں میں آزادی کی یہ دو دھاری تلوار دے کر انسانی اصولوں اور اخلاقیات کے خاتمہ کرنے کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں، بیشک اس طرح کی شدت پسندانہ نفسیات جلد یا بدیر اپنے انجام تک پہنچ جاتی ہے لیکن اس کا بروقت سدباب کرنا ضروری ہے تاکہ زیادہ نقصانات سے بچا جا سکے، کیونکہ اگر اس طرح کی آزادء اظہار رائے کا حامی اس دنیا کی نصف آبادی ہو جائے تو صرف اسلام ہی نہیں سارے ہی مذاہب پہ بیحرمتی کی تلوار لٹکنے لگے گی کسی بھی مذہب کی بے حرمتی پہ اس کے معتقدین کا رنجیدہ و برافروختہ ہونا فطری ہے کیونکہ اس سے انسان کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں اس بے مہار آزادی کی وجہ سے بقائے باہم کا نظریہ بے موت مر جائے گا، اور لوگ مذہبی مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہوئے تضحیک ذات کی بھی آزادی چاہنے لگیں گے جو انارکیت کی وجہ بنے گی، بیشک اس طرح کی شدت پسند نفسیات کو عوام کی اکثریت قبول نہیں کرتی اور خود سویڈن کی حکومت نے اس کی مذمت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ یہ انسانی عظمت کے منافی ہے اگرچہ اس طرح کے اقدام حکومتوں کی سرپرستی میں ہوں لیکن اس کے بے بنیاد اور غیر اخلاقی ہونے کی وجہ سے وہ اس کی برملا حمایت نہیں کر سکتے۔ وقتی مفادات کے لئے قوموں کے تحفظات کو پس پشت ڈالنا ایک مذموم عمل ہے۔
اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے ذہن میں یہ سوال فطری طور پہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزادیٔ اظہار رائے کی حقیقت کیا ہے، آزادیٔ اظہار رائے وہ آزادی ہے جو قدرت کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی ہے ملوکیت، آمریت جیسے ناکام تجربے کرنے کے بعد دنیا نے بھی اسے تسلیم کر لیا ہے کہ انسانی فطرت کو اجتماعی طور پہ جبراً کسی ایک نظریے کا اسیر نہیں بنایا جا سکتا، انسانی جبلت اس جبر کو قبول نہیں کر سکتی کیونکہ ہر انسان خود سوچنے و سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کسی روبوٹ کی طرح مخصوص طرز پہ اس کی پروگرامنگ نہیں کی جا سکتی، آمریت اور ملوکیت سے نکل کر دنیا اب جمہوریت کے دور میں داخل ہو چکی ہے یہ کہیں نہ کہیں انسانوں کی آزادیٔ اظہار رائے کو شرف قبولیت بخشنا ہے، اس سے ہر کوئی واقف ہے کہ جمہوری ملک کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ اس ملک کے عوام کچھ بھی کرتے رہیں ان پہ کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی، اور ان کو یہ حق حاصل ہے کہ جو چاہیں کرتے رہیں ان کو روکا نہیں جا سکتا، ہر جمہوری ملک کا اپنا ایک دستور ہوتا ہے جس میں انسانی آزادی کو اصولوں کا پابند کیا گیا ہے جس میں حکومت سے لے کر عوام تک کے حدود کا تعین کیا گیا ہے آزادی کا تقاضہ بھی یہی تھا ورنہ یہ بے بنیاد بے مہار آزادی بہتوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی، یہ آمریت کی ہی ایک بدلی ہوئی شکل ہوتی جس کے محرک حکمراں کے بجائے عوام ہوتے۔
اس روشنی میں مغرب کی آزادیٔ اظہار رائے کو اگر پرکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ آزادیٔ کا دوہرا معیار رکھتے ہیں اگر مغربی ممالک آزادء اظہار رائے کو اس قدر وسیع بنانے پہ تلے ہوئے ہیں کہ اپنی سرکش جذبات کی تسکین کے لئے مذہب اور ان کے مقدسات کی بے حرمتی کو آزادیٔ اظہار رائے کہنے پہ بضد ہیں جس کی تعلیمات سے ان کا قطعاً کوئی واسطہ نہیں، اگر خدا نخواستہ کوئی ان کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے لئے ایسی کسی حرکت کا ارتکاب کرے تو کیا وہ خاموش رہیں گے یا انھیں برا نہیں لگے گا، کیا وہ یہ حق دیں گے کہ دوسری غیر ابراہیمی اقوام ان کے مذہبی مقدسات ساتھ یہ سلوک کریں، اگر کوئی ایسا کر جاتا ہے تو کیا انھیں کسی بھی طرح کا احتجاج کرنا زیب دے گا ہو سکتا ہے اس کے چین ری ایکشن کا عمل شروع ہو جائے جو انسانی تہذیب کے بالکل منافی ہوگا، مسلمہ تہذیب و ثقافت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہر مذہب کا احترام کیا جائے اس سے فکری اختلاف رکھنا آپ کا حق ہے لیکن اس کی تضحیک کرنا بڑے جرائم میں شامل ہے خود اسلام نے بھی اس کی ممانعت کی ہے اور اس کا احترام کرنے کی ترغیب دی ہے۔
جس طرح آزادی کو اپنی شرطوں پہ محدود نہیں کیا جا سکتا بالکل اسی طرح اس کو بے لگام اور ہر حد سے آزاد بھی نہیں کیا جا سکتا جس طرح سے ملکی نظام کو پرامن طور پہ چلانے کے لئے آئین کا ہونا ضروری ہوتا ہے بالکل اسی طرح مذہب کے تحفظ کے لئے بھی قانون ہونا چاہئے جس کے تحت لوگوں کو مذہب کے چھوڑنے اور اپنانے کی آزادی حاصل تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی تضحیک اور بیحرمتی کرنے کا حق نہیں ہو سکتا۔
مغربی ممالک میں قرآن کی بے حرمتی اسلاموفوبیا کا ہی ایک حصہ بن چکا ہے عام لوگوں کے ذہنوں پہ اسلام کی تعلیمات کا ایسا منفی رخ منقش کر دیا گیا ہے کہ وہ ہر واقعے کو ایک مخصوص تناظر میں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اگر کسی بھی شدت پسند واقعے میں کسی مسلم گروہ کا ہاتھ ہو تو اس کو اس قدر نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گویا انھوں نے وہ دلیل تلاش کر لی ہے جو ان کے برحق ہونے کی گواہی دے رہی ہے، ایسے میں مسلمانوں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسری اقوام کے ساتھ رسم و راہ کو دوستانہ سطح پہ لانے کی کوشش کریں اور انھیں اپنے عمل سے یہ بتائیں کہ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں، ان کی مذموم حرکتوں کی مذمت کرنے ہوئے جذباتی ردعمل سے گریز کریں، منطقی سطح پہ ان کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کریں اس کے مطابق حکمت عملی اختیار کریں، اس وقت دنیا کے نقشے میں انھیں کی طاقت جلوہ فرما ہے مسلمان کے پاس وہ طاقت نہیں کہ طاقت کے بل پہ انھیں زیر کر سکیں اسلام اپنے نظریات میں اتنا مستحکم ہے کہ وہ اپنی حفاظت خود کر سکتا ہے بشرطیکہ مسلمان جذباتیت سے پرہیز کرتے ہوئے عقلی حکمت عملی اختیار کریں، علمی طبقے کے لوگوں کو قرآن سے متعارف کروائیں اور ان سے ان کے نظریات کی دلیل پہ مکالمہ کریں ان کے اندر بھی ضمیر ہے جسے جگانے کی ضرورت ہے خیر و شر کا شعور اور فطری صالحیت ان کے بھی خمیر شامل ہے جس کو ایڈریس کر کے ہم ان کے نظریات میں تبدیلی لانے کی کوشش کر سکتے ہیں ہم فقط اپنی ذمیداری خوش اسلوبی سے ادا کریں باقی اللہ خود اپنی تعلیمات کو مستحکم بنانے کے لئے اقدامات کرنے کا اختیار رکھتا ہے، اس کے بعد اسلام کی تعلیمات خود اپنا دفاع کر سکتی ہیں، اسلام کسی مسلمان کا بنایا ہوا مذہب نہیں بلکہ یہ آفاقی نقطۂ نظر کا حامل خدائی مذہب ہے یہ اپنی تاثیر رکھتا ہے اس کی حقانیت کو کسی مسلمان کے عمل سے نہیں پرکھا جا سکتا، مسلمانوں کو اس کی نمائندگی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کے تقاضوں کے تحت مسلمانوں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بدلتے وقت کی نفسیات کا مطالعہ کرتے ہوئے برمحل اس کی تبلیغ کریں، نبی کریم صہ نے مکی دور میں جس اسوۂ حسنہ کو ہمارے لئے مثال بنایا ہے اس کو اپنانے کی ضرورت ہے، نظریات کی جنگ کو جذباتیت کے ساتھ لڑنے کے بجائے منطق اور حکمت کے ساتھ لڑنے کی ضرورت ہے، ہم فقط ان کی مذمت کر کے اسلامی تعلیمات کا تحفظ نہیں کر سکتے، ناروے اور سویڈن جیسے واقعات کا سد باب کرنے کے لئے خود مسلمانوں کو عملی سطح پہ کوشش کرنی ہوگی، اس کی ذمہ داری مسلم قائدین پہ عائد ہوتی ہے۔
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS