اسد مرزا: روس کیلئے امریکی ہتھیار بشکریہ طالبان

0

اسد مرزا


’’بعض اوقات آپ کی قلیل المدتی سیاسی اور جنگی مجبوریاں آپ کواپنے مخالفین کے ساتھ بھی ہاتھ ملانے کو مجبور کردیتی ہیں۔ایسا ہی کچھ روس اور طالبان کے درمیان دیکھنے میں آرہا ہے۔‘‘
برطانوی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق روس 2021 میں افغانستان سے امریکی افواج کے عجلت میں انخلاء کے بعد افغانستان میں چھوڑے گئے ہتھیاروں پر اب روس کی نظر ہے۔ ان ہتھیاروں کو حاصل کرنے کے لیے روسی سفارت کاروں کے ذریعے بتایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں نگراں طالبان حکومت کے عناصر کو آمادہ کر رہے ہیں۔ برطانوی ٹیبلائڈ دی سن نے گزشتہ ہفتے ٹیلی گرام چینل کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا تھا کہ ’کریملن کے قریبی ذرائع‘ کے مطابق روس افغانستان سے ہتھیاروں کا متلاشی ہے جس میں وہ ہتھیار بھی شامل ہیں جو 2021 میں امریکہ نے افغانستان میں چھوڑے دیے تھے۔دراصل یوکرین کے ساتھ جاری جنگ میں روس کو اسلحے کی کمی کی رپورٹیں اب زیادہ سامنے آرہی ہیں۔رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یوکرین کے خلاف موسم بہار سے پہلے متوقع بڑی جنگی کارروائی کی منصوبہ بندی کے درمیان، روس نے مبینہ طور پر افغانستان میں طالبان حکومت کو ہتھیاروں کے لیے رجوع کیا ہے۔ CNN کی ایک رپورٹ میں امریکی محکمہ دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکی فوجیوں نے افغانستان سے انخلاء کے وقت 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا اسلحہ اور ساز و سامان افغانستان میں چھوڑ دیا تھا۔
روس کے لیے امریکی ہتھیار
دی سن نے ٹیلی گرام چینل، General SVR کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ پوتن نے طالبان سے امریکی فوجیوں کے چھوڑے گئے ہتھیاروں کو روس کو مہیا کرانے کے لیے کہا ہے۔ جنرل ایس وی آر چینل نے کریملن کے اندرونی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسلحے کے بدلے پوتن طالبان کی حکومت کو ’’تسلیم‘‘ کرسکتے ہیں۔دی سن کی رپورٹ کے مطابق’’پیوٹن طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی نگرانی کر رہے ہیں۔ بدلے میں، روسی قیادت بڑے ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کے تبادلے کا مطالبہ کررہی ہے۔‘‘جنرل ایس وی آر نے مزید کہا کہ مذاکرات سے آگاہ افراد کا کہنا ہے کہ طالبان اس طرح کی تجاویز سے بذاتِ خود “انتہائی حیران” ہیں، تاہم وہ ان پرہر زاویے سے بات کر رہے ہیں۔یہ دعویٰ دوسری متضاد رپورٹوں کے درمیان سامنے آیا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روس اور پاکستان طالبان کے ساتھ ’’عملی اشتراک‘‘ کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ روس طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے جبکہ کچھ کا دعویٰ ہے کہ وہ فی الحال ایسی کسی تجویز پر غور نہیں کر رہا ہے۔اگر واقعی یہ رپورٹس درست ہیں تو یہ طالبان کے لیے ایک نوید ثابت ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ اس طرح آخر کار وہ کم از کم ایک سابق سپر پاور کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے اور اس کے علاوہ انہیں روسیوں سے کچھ مالی پیکج بھی مل سکتا ہے۔ طالبان حکومت کو مناسب طریقے سے کام کرنے کے لیے رقم کی اشد ضرورت ہے۔
اطلاعات کے مطابق، افغانستان کے لیے روس کے صدارتی ایلچی ضمیر کابلوف نے 25 جنوری کو اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کی اور انہیں اس ماہ کے شروع میں کابل میں طالبان کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ ملاقات کے بارے میں جاننے والے سرکاری پاکستانی ذرائع نے وائس آف امریکہ (VOA) کو بتایا کہ کابلوف نے کہا کہ روس طالبان کے ساتھ رابطے جاری رکھے گا لیکن وہ طالبان حکمرانوں کو ’’فی الحال‘‘ رسمی طور پر تسلیم کرنے پر غور نہیں کر رہا ہے۔VOA نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ روسی ایلچی نے تمام طالبان کو ایک ’’سیاسی طور پر شامل‘‘ حکومت بنانے اور خواتین پر پابندیوں کو کم کرنے کا’’مشورہ‘‘ بھی دیا ہے۔
افغانستان میں امریکی ہتھیار
طالبان کے کابل پر قبضے کے دوران افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد، 70 فیصد امریکی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ افغان فورسز کو فراہم کردہ 48 ملین ڈالر مالیت کا گولہ بارود بھی جنگ زدہ ملک میں رہ گیاتھا۔ یہ تعداد سفارتی امور کے میگزین ’ فارن پالیسی‘ نے گزشتہ سال اپریل میں اپنی ایک رپورٹ میں کہی تھی۔ فوجی ساز و سامان میں 23,825 ہموی گاڑیاں اور تقریباً 900 جنگی گاڑیاں شامل تھیں۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 42000کے قریب نائٹ ویژن ، نگرانی ، بائیو میٹرک اور پوزیشننگ کے آلات پیچھے چھوڑ دیے تھے۔ امریکی محکمہ دفاع کی رپورٹ سے واقف حکام کا کہنا تھا کہ طالبان کے لیے امریکی ہتھیاروں کے استعمال کا امکان نہیں ہے،کیونکہ اس کے لیے تکنیکی مہارت اور خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہے، جو طالبان کے پاس نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے طالبان جنگجوؤں کی جانب سے خودکار رائفلوں سمیت چھوٹے ہتھیاروں کے استعمال پر بھی خدشات کا اظہار کیا تھا۔
حقیقت:
بڑا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی روس کے پاس ہتھیاروں کی کمی ہے؟ سابق روسی صدر، دمتری میدویدیف جو اب فوجی صنعتی کمیشن کے نئے سربراہ ہیں ، جو جنگ کے لیے ہتھیاروں کی تیاری کی نگرانی کر رہا ہے، ان کا دعویٰ ہے: نہیں۔ مغربی میڈیا کی ان رپورٹس پر تنقید کرتے ہوئے کہ روس کو میزائلوں اور توپ خانے کی کمی کا سامنا ہے، میدویدیف نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ یوکرین میں لڑائی جاری رکھنے کے لیے ماسکو کے پاس ہتھیاروں کا کافی ذخیرہ ہے۔ روئٹرز نے اسے یہ کہتے ہوئے رپورٹ کیا تھا کہ ہمارے مخالفین ہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ وقتاً فوقتاً یہ بیان دیتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ یا وہ نہیں ہے… میں انہیں مایوس کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے پاس سب کچھ کافی مقدار میں موجود ہے۔
میدویدیف کے ٹیلی گرام چینل پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں انہیں کلاشنکوف رائفلز، توپ خانے کے گولے، میزائل اور ڈرونز کا ذخیرہ کا معائنہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ روسی فوجیوں نے یوکرین میں اپنے حملوں کے لیے ایران کے بنائے ہوئے ڈرون بھی تعینات کیے ہیں۔روس کے انکار کے باوجود یوکرین اور مغربی فوجی حکام کا دعویٰ ہے کہ روس کو اسلحے کی کمی کا سامنا ہے۔
برطانیہ کی متحدہ فوجوں کے چیف ایڈمیرل سر ٹونی راڈاکن نے گزشتہ دسمبر کی ایک اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ دراصل روس نے ’’30 دن کی قلیل المدتی جنگ‘‘ کا منصوبہ بنایا تھا لیکن یہ جنگ کافی لمبی ہوگئی ہے اور اب اسے توپ خانے کے گولوں کی ’’انتہائی شدید کمی‘‘ کا سامنا ہے۔برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ نے ان کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ روس کی کامیاب جارحانہ زمینی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔جب روس نے یوکرین پر حملہ شروع کیا تو اسے صورت انگیز آپریشن کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جس سے دارالحکومت کیف پر قبضہ کیا جاسکے۔ تاہم، یوکرین کی مسلح افواج (AFU) کی شدید مزاحمت نے روسی فوجیوں کو پیچھے دھکیل دیا تھا اور اسے جنگ بندی کی جنگ بنا دیا، جو اس ماہ ایک سال مکمل کرچکے گی۔
یہ جنگ بنیادی طور پر روس کے لیے دوہرا نقصان ثابت ہوئی ہے۔ نہ صرف ملک نے بڑی تعداد میں فوجی اورجنگی ساز و سامان گنوایا ہے بلکہ ماسکو پابندیوں کی وجہ سے جنگ سے پہلے کی سطح پر ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت سے بھی قاصرہو رہا ہے۔ یوکرین کی وزارت دفاع کی طرف سے شائع ہونے والے روزانہ کے اندازوں کے مطابق، روس اب تک 3100 سے زائد ٹینک، 6300 سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں، 2100 سے زیادہ توپ خانے، 1900 سے زیادہ ڈرونز، اور تقریباً 300 فوجی جیٹ طیارے گنوا چکا ہے۔
دریں اثنا، یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ نیٹو یوکرین کو مزید جدید اقسام کے ٹینک فراہم کرنے جا رہا ہے تاکہ موسم بہار سے پہلے کی روسی جارحیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔لیکن اس کے برعکس اگر طالبان سے متعلق خبریں درست ہیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کو جنگ جیتنے کے لیے کیا کچھ کرنا ہوتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
www.asadmirza.in)

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS