کیوں بنایا گیا ’بلی کا بکرا‘؟

0

آخرکار شرجیل امام، صفورہ زرگر، آصف اقبال تنہا اور دیگر 8 لوگ الزامات سے بری کر دیے گئے۔ یہ فیصلہ دہلی کی ساکیت کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے سنایا۔ شرجیل امام کو فی الوقت رہائی نہیں ملے گی، 2019 میں دہلی میں ہوئے تشدد کے تین دیگر معاملوں میں بھی ان پر الزامات ہیں۔ساکیت عدالت نے کہا، ’نااتفاقی اظہار رائے کی آزادی جیسے بنیادی حقوق کی ہی توسیع ہے۔ ‘دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نزدیک ہوئے تشدد کے سلسلے میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا، ’اس معاملے میں دائر کلیدی چارج شیٹ کو دیکھنے کے بعد جو نکات ہمارے سامنے لائے گئے ہیں، ان سے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ پولیس جرائم کو انجام دینے والے اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی لیکن ان لوگوں(شرجیل اور دیگر لوگوں) کو بلی کے بکرے کے طور پر گرفتار کرنے میں کامیاب رہی۔‘ سوال یہ ہے کہ پولیس نے ’بلی کا بکرا ‘کیوں بنایا؟ ایسا کرنے کے پیچھے اس کی منشا کیا تھی؟ کیا قصوروار پولیس والوں کو کوئی سزا ملے گی؟
یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ’انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ انصاف اگر مانگا جائے اور انصاف نہ دیا جائے تو وہ کیا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر الزامات عائد کرکے انصاف سے دور رکھا جائے تو وہ کیا ہے؟ یہ سچ ہے کہ ہندوستان میں ابھی بھی عدالتوں سے لوگوں کا اعتماد اٹھا نہیں ہے، ججوں نے اپنے فیصلوں سے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مظلوم کے خلاف فیصلہ نہیں سنائیں گے، وہ کسی بے قصور سے ناانصافی نہیں ہونے دیں گے لیکن مشکل تو یہ ہے کہ عدالتوں میں جج کم ہیں، اسی لیے بے قصور لوگوں کو انصاف کے حصول میں کافی انتظار کرنا پڑتا ہے، انہیں اپنوں سے دور جیل میں شب و روز کاٹنے پڑتے ہیں، انہیں انصاف دلانے کے لیے اپنوں کو بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں، وکلا کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے، میڈیا کے ناانصافی پر مبنی رویے کے نتیجے میں ان کے لیے جو ماحول خراب ہوتا ہے، اس سے ان کے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے، کئی باران کے اہل خانہ تباہ ہوجاتے ہیں، وہ ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ان کی رہائی کا انتظار کرتے کرتے ان کے کئی اپنے مر جاتے ہیں مگر انصاف پرور عدالتیں اگر ان لوگوں کے خلاف کارروائی کریں جو بے قصور لوگوں کو پھنساتے ہیں تو انصاف کا نظام برقرار رکھنے میں آسانی ہوگی، بے قصور لوگوں کو پھنسانے والے پولیس والوں کو یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ ان کا کام سماج کو جرائم پیشہ افراد سے بچانا ہے، سماج کے بے قصور لوگوں کو مجرم بنانا نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں، اگر وہ بے قصور لوگوں کو ’بلی کا بکرا‘ بناتے ہیں تویہ خود ایک بڑا جرم ہے اور اس جرم کے ارتکاب سے سماج کو مثبت راہ نہیں ملتی، اس میں بے چینی پیدا ہوتی ہے اور بے چین سماج ملک کی ترقی میں کوئی بڑا رول نہیں ادا کر پاتا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا استعمال ملک کی تعمیر میں ہونا چاہیے، انہیں ’بلی کا بکرا‘ بنانے کے لیے نہیں۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، اگر لوگ حکومت کے کسی فیصلے سے ناخوش ہوتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے ایک فیصلے کے خلاف ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ حکومت کے خلاف ہیں۔ انہیں اگر احتجاج کرنے دیا جائے، ان کے جمہوری حق کا اگر احترام کیا جائے تو اس سے ملک کی شبیہ بہتر ہی ہوتی ہے۔ حکومت کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ ہمارا ملک ان ملکوں جیسا نہیں ہے جہاں آواز دبائی جاتی ہے، جہاں آواز دبانے کے لیے نئے نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، ہمارا ملک کبیر کا ملک ہے جن کے دوہوں کو لوگوں نے سماجی اصلاح کے لیے ضروری سمجھا اور ان کے خلاف جانے کے بجائے انہیں احترام دیا، اس حد تک احترام دیا کہ آج ان کی موت کے 500 سال بعد بھی لوگوں نے انہیں اور ان کے دوہوں کو بھلایا نہیں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ملک نام نہاد جمہوری ملک نہیں ہے، جمہوریت اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے، ملک کی تابندگی اسی میں ہے کہ اس کی جمہوری جڑوں کو اور مضبوط کیا جائے، لوگوں کو اظہار رائے کی زیادہ آزادی دی جائے، انہیں حیلے بہانوں سے روکنے کی کوشش نہ کی جائے، البتہ کسی کو بھی جمہوری آزادی کے نام پر ملک کے خلاف جانے کا حق نہیں، اسے آئین کے دائرے میں رہ کر ہی احتجاج کرنے کا حق ہے اور اس دائرے سے اگر وہ باہر نکلتا ہے، سماج میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قانون نافذ کرنے والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں تاکہ عدالت اس کے کیے کی سزا دے مگر بے قصور لوگوں کو پھنسا دینا نہ فرض کی ادائیگی ہے، نہ انصاف ہے اور نہ ہی وطن پرستی۔
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS