اپنا ہی پتا بھول گئـے: زین شمسی

0

زین شمسی

ابھی ابھی کلش یاترا سے آیا ہوں ۔ میرا شہر مونگیر 21سے24یعنی آج تک رام کے رنگ میں ڈوبا رہا ۔ بڑے بڑے ہورڈنگس، پوسٹرس اور ڈی جے سے فلک شگاف صدائیں، شہر کے کونے کونے میں بھگواجھنڈوں سے تزئین کاری۔ شہر کے لوگوں میں جوش و خروش اور دل دیوالی۔ مسلم علاقوں میں خائف زدہ خاموشی اورامکانات و نتائج پر سرگوشی کہ پتا نہیں کیا ہوگا۔ کچھ لوگوں کو یقین کہ ہورہے گا کچھ نہ کچھ اور کچھ لوگوںکا اعتماد کہ نہیں ہوگا کچھ۔ بڑے بڑے دانشوران میں بھی اتساہ اور بڑے بڑے بزنس مین بھی مسحور ۔ایک بات چونکانے والی تو نہیں مگر معمولی بھی نہیں کہ یہ جشن اس جگہ زیادہ دیکھا گیا جہاں امبیڈکر کی مورتیاں نصب ہیں۔ وہاں کے لوگ نہ صرف خوشیاں بانٹ رہے تھے بلکہ قابل اعتراض نعرے بھی لگا رہے تھے۔شہر کے کچھ چنندہ لوگ یہ کہتے ہوئے بھی دیکھے گئے کہ یہ بی جے پی کا پرچار و پرسار ہے۔ ایک جگہ تو بحث یہ بھی چھڑی ہوئی تھی کہ رام مندر وہاں سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر بنایا گیا ہے، جہاں بابری مسجد کی شہادت عمل میں لائی گئی تھی۔ اس بحث کا خاتمہ اس طرح کیا گیا کہ جے شری رام کو اکیلا چھوڑ دینے سے خواتین کا حق سلب کر دیا گیا ہے۔ اس لیے بابری مسجد کی جگہ سیتا جی کی مورتیاں نصب کر دی جائیں گی۔ چونکہ وہاٹس ایپ کا دور ہے تو جتنے منھ اتنی باتیں۔ شاید پورے بھارت میں بھی ایسا ہی ماحول رہا ہوگا ، میرا روڈ ممبئی ذرا اس سے آگے۔
مکل کیسوان کے آرٹیکل میں پڑھا کہ اب بھارت صرف Nominal Republicبن کر رہ گیا ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت ہندوراشٹر نہیں ہے تو وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے اور ان جیسے دوسرے مضمون نگاروں نے بھی رام للا کی پران پرتشٹھا تقریب پر مختلف آرا پیش کیں، مگر انہیں پڑھنے اور سمجھنے والے اتنے قلیل تعداد میں ہیں کہ سچائی سامنے سے غوطہ زن ہوجاتی ہے۔ اب کتابوں،اخباروں اور تاریخ پر بات کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے اور وہاٹس ایپ سب کو گریجویٹ بنا چکا ہے، اس لیے گریجویٹ طلبا بھی اپنے گروپس میں جے شری رام کے ویسے نعرے لگاتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں جیسا انہیں بھارت کا میڈیا اور آر ایس ایس کے ہونہار دانشوران سمجھا رہے ہیں۔
پیچھے کی طرف مڑتے ہیں تورام ایک سنسکاری اور مریادا پرشوتم کی طرح کھڑے نظر آتے ہیں ، جن میں کرونا ہے ، محبت ہے ، والدین کی عزت ہے اور بھائیوں سے پیار ہے، اخلاق ہے، تہذیب ہے اور سب سے بڑی چیز کہ انصاف ہے۔ وہ رام دکھائی دیتے ہیں جنہیں غرور سے نفرت ہے۔ میں نے کہیں کسی سے سنا کہ راون کو گیان کا گھمنڈ تھا اور رام کو گھمنڈ کا گیان تھا، اس لیے راون اپنے تکبر کی وجہ سے مارا گیا اور رام اپنے علم کی وجہ سے فاتح ہوئے۔ ایسے مریادا پروشتم کی شبیہ جلالی کر دینے والے لوگ بھگوان کی صفت کو ہی بدلتے نظر آتے ہیں۔ جس طرح کا نظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے کیا ہم اب کبھی رام لیلا سے جذباتی طور پر جڑ پائیں گے؟کیا ہم رام اور سیتا میں بھارت کی مریادا تلاش کر پائیں گے؟ ہم نے رام اور کرشن کو بھارت کا ایسا اوتار تصور کیا تھا جس میں ظلم سے لڑنے کی طاقت تھی، ناانصافیوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی جرأت تھی۔ ہم ایسے رام کو کس نظریہ سے دیکھ پائیں گے کہ جس کے نام کے ساتھ ایک چلاہٹ کو جوڑ دیا گیا ہے۔
مسلمانان ہند تو ’’بائے‘‘ پر چل رہے ہیں ۔ ’’بائے‘‘کا مطلب یہ کہ ان میں جان نہیں بچی ہے بس وہ کچھ دور تک بغیر سانسوں کے چل رہے ہیں۔ انہیں سمجھ میں ہی نہیں آرہا ہے کہ ان کا کیا ہوگا۔ ان کو قومی رہنماؤں سے امید ہے اور نہ ہی ملی رہنمائوں پر یقین۔ مالی اور معاشرتی طور پران کی غریبی عیاں ہوچکی ہے۔ ان اللہ مع الصابرین کے علاوہ سردست ان کا مداوا بھی نہیں ہے۔ دراصل وہ بیچارہ ہوچکے ہیں۔ مگر اس کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ان کی بیچارگی میں صرف بھارت کی سیاست کو ذمہ دار بالکل نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی سیاست میں مسلمان ہمیشہ سے ہی ٹھگے گئے ہیں۔ کم از کم بی جے پی مسلمانوں کو ٹھگ نہیں رہی ہے بلکہ اس بات سے باور کرارہی ہے کہ بھارت میں رک جانے کے بعد اس نے اپنے آپ کو بیدار کیوں نہیں کیا؟ تقسیم ہند سے قبل مسلمان انگریزوں سے لڑے اور تقسیم ہند کے بعد مسلمان مسلمان سے ہی لڑتے رہے، مسلک اور فرقہ بندی کے نام پر ہندوستان کی سیاست نے ان کی اس لڑائی کو بس کچھ مراعات دے کر ہوا دی اور وہ انجانے طور پر اس میں پھنستے رہے۔
اور سیاسی طور پر ان سے جس پارٹی نے حفاظت کا وعدہ کیا بس وہ ادھر ہی چلے گئے۔ کانگریس سے جی اکتا گیا تو علاقائی پارٹیوں کو مضبوط کیا اور اپنی حیثیت کو مزید کم کرتے رہے۔یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ علاقائی پارٹیوں کا پورا دارومدار ذات کی بنیاد پر ہے، انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا تب بھی وہ وہیں گرے۔ ان سے بھرم ٹوٹا تو سامنے بی جے پی تھی۔ کریں تو کیا کریں، لامحالہ پھر نئی پارٹی کی کھوج۔ اب جب آنکھ کھلی کہ جتنی پارٹیوں نے مسلمانوں کو تحفظ کی گولیاں کھلائی تھیں، وہ اب خود ہی محفوظ نہیں ہیں۔ ان کے ہی برے دن شروع ہوگئے۔ ایسے میں اب وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔
اب علاقائی پارٹیوں کے ساتھ سب سے بڑی پریشانی ہے کہ ان کی شناخت جس ذات کے لوگوں سے ہے، وہ ذات بھی انہیں آنکھ دکھانے لگی ہے، کیونکہ بھارت کی سیاست میں سوذات کی تو ایک دھرم کی۔ بی جے پی نے صحیح وقت میں گرم لوہے پر ہتھوڑا مار دیا۔
اب حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے دانشوران اور بہتیرے علمائے دین حکومت کی چوکھٹ پر نظر آنے لگے ہیں۔ان کے اس درباری پن سے صرف ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ میرا مفاد حل ہوجائے بھلے ہی کمیونٹی اپنا ذہنی سکون کھو دے۔ان سے جب پوچھا جاتا ہے کہ حضور آپ یہاں کیسے؟ تو بہت شاندار جواب تیار ہے، سرسید بھی تو انگریزوں سے ملے ہوئے تھے، انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ کیا شاندار جواب ہے ۔ یہ ایسا ہی جواز ہے کہ ہدایت کے لیے اتارا گیا قرآن کریم جب سمجھ میں نہیں آیا تو اس کے پڑھنے کو ثواب کہہ دیا گیا۔ہم جواز ڈھونڈنے میں ماہر ہیں اور اپنی ہر ناکامی کا جواز ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔صرف یہ نہیں ڈھونڈ پاتے کہ ہم کہاں تھے اور کہاں آگئے۔سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنا ہی پتا بھول گئے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS