اس پرآشوب دور میں انسانی حقوق کی اہمیت: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

بین الاقوامی برادری نے اب اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ کسی ملک کی سالمیت اور سماج کا تحفظ اس بات پر منحصر ہے کہ وہاں پر انسانی حقوق کا کتنا احترام کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی عدم استحکام کو جنم دیتی ہے اور اس سے کسی ملک کی سالمیت اور اس کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ ہر بین الاقوامی فورم پر تمام ممالک اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ دنیا کے تمام سیاسی ودیگر مسائل باہمی بات چیت سے حل ہوں، کہیں پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو، سیاسی استحکام ہو، جمہوری اقدار کی قدر کی جائے، تمام بین الاقوامی قراردادوں، عہدناموںومتعلقہ دستاویزوں کا احترام کیا جائے اور ان پر عمل درآمد کیا جائے اور جو ممالک ایسا کرنے سے گریز کریں، ان کے خلاف متعلقہ بین الاقوامی فورم میں مناسب کارروائی کی جائے۔ ان سب باتوں کے باوجود آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں تشدد، شورش، دہشت گردی، مسلح مڈبھیڑ و تصادم جیسے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مذہبی جنون اور فرقہ واریت بڑھتی جارہی ہے ۔
جب تک کمزور کو دبایا جاتا رہے گااور ان پر مظالم ہوتے رہیں گے یا بالفاظ دیگر جب تک انسانی حقوق کے تسلیم شدہ اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی تب تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دنیا صحیح معنوں میں ایک مہذب دنیا بن چکی ہے۔ اس دنیا کو صحیح معنوں میں گلوبل ولیج تب کہا جائے گا جب ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے جیسا سمجھے اور اس کے ساتھ برابر کا سلوک کرے اور کسی کا استحصال نہ ہو۔ ایک لاطینی ضرب المثل کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی ہی زمین یا حدود میں کوئی ایسا تعمیراتی کام کرتا ہے جس سے کسی دیگر شخص کو تکلیف پہنچے یا اس کے جذبات مجروح ہوں تو اس کا یہ فعل غیر قانونی اور ناجائز متصور ہوگا۔
ایک عام آدمی کے لیے انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرن تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔ لیکن اب انسانی حقوق کا دائرہ تو اس سے بھی زیادہ وسیع ہوچکا ہے۔ عزت سے جینا اور عزت سے مرنا دونوں ہی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ کسی کو تشدد کا نشانہ بناکر انسانیت سوز حرکات کے ذریعہ اس کی جان لینا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مرنے کے بعد بھی کسی کی لاش یا میت یا اس کی قبر کی یا اس جگہ کی جہاں اسے دفن کیا گیا ہے یا نذرآتش کیا گیا ہے یا جہاں کسی قسم کی آخری رسوم ادا کی گئی ہیں، بے حرمتی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق انسان کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں بجا نہ ہوگا۔انسانی حقوق کی تعریف مختلف نقطۂ نظر سے کی جاسکتی ہے جیسے انفرادی نقطۂ نظر، اجتماعی نقطۂ نظر، اخلاقی نقطۂ نظر، قانونی نقطۂ نظر، سیاسی نقطۂ نظر، معاشرتی یا سماجی نقطۂ نظر، مذہبی نقطۂ نظر، معاشی یا اقتصادی نقطۂ نظر، تاریخی نقطۂ نظر یا بین الاقوامی نقطۂ نظر۔ انسانی حقوق تحفظ ایکٹ، 1993 کی دفعہ 2 (د) میں جو انسانی حقوق کی تعریف کی گئی ہے، وہ ایک نہایت جامع تعریف ہے اور اس کو وضع کرتے وقت متذکرہ بالا تمام نظریات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اگر اس تعریف کو بین الاقوامی اصولوں پر بھی پرکھا جائے تو وہ پوری اترے گی۔ یہ تعریف اس طرح ہے: ’’انسانی حقوق سے مراد ہیں کسی فرد کی زندگی، آزادی، مساوات اور عظمت کی نسبت ایسے حقوق جن کی آئین کی رو سے ضمانت دی گئی ہو یا جو بین الاقوامی معاہدوں میں شامل کیے گئے ہوں اور بھارت میں عدالتوں کے ذریعہ قابل نفاذ ہوں۔‘‘
بھارت کے آئین میں انسانی حقوق کوآئین کے جز 3 میں بنیادی حقوق کی شکل میں شامل کیا گیا ہے۔اسی لیے اسے انسانی حقوق کا چارٹر کہا جاتا ہے۔ اس میں حق مساوات، حق آزادی، استحصال کے خلاف حق، مذہب کی آزادی کا حق، ثقافتی اور تعلیمی حقوق، آئینی چارہ کار کا حق کی شمولیت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انسانی حقوق براہِ راست تو صرف انسانوں کو ہی حاصل ہیں لیکن انسانوں کے توسط سے یہ حق جانوروں اور پرندوں کو بھی حاصل ہوگئے ہیں اور اگر جانوروں یا پرندوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا جاتاہے تو اس کے خلاف دیگر قوانین کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔
کئی سال قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے یوم حقوق انسانی کے موقع پر دیے گئے اپنے ایک پیغام میں یہ کہا تھا کہ ہم سب اس بات کا اعادہ کریں کہ ہم ہر قسم کے نسلی امتیاز، تشدد، تعصب، عدم رواداری جیسی برائیوں کو دور کریں گے۔ انہوں نے اپنے اس پیغام میں اس بات کی طرف بھی واضح طور پر اشارہ کیا تھا کہ ابھی ہم اپنی منزل سے بہت دور ہیں۔ آج بھی دنیا میں مردوں، عورتوں اور بچوں کو یہ بھروسہ نہیں کہ وہ کب تک زندہ رہیں گے یا یہ کہ انہیں کب اپنی جان سے صرف اس لیے ہاتھ دھونا پڑے کہ ان کا جنم کسی خاص فرقہ یا گروپ میں ہوا ہے یا یہ کہ ان کا اس سے تعلق ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھاکہ آج کے دن ہم سب کو پھر سے اپنے اس عہد کی تجدید کرنی چاہیے کہ ہم ایک ایسی ملی جلی عالمی ثقافت کو جنم دیں گے جس میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ ایک ساتھ پیار و محبت کے ساتھ رہیں۔ ان کے اس پیغام کی اہمیت تا ہنوز باقی ہے۔ کاش! اسرائیل و حماس جنگ میں ملوث فریقین اور ان کے حامیوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آجاتی۔ اقوام متحدہ کے موجودہ سکریٹری جنرل بھی بار بار اسی طرح کے بیانات دے کر اور مختلف ممالک میں جنگ کو روکنے کی اپیل کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل اور دیگر ممالک میں احتجاج کے باوجودصورت حال جوں کی توں بنی ہوئی ہے ۔آج بھی اس جنگ میں روز انہ کثیر تعداد میں لوگوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔رہی بات اس کے متوقع نتائج نکلنے کی تو ایک امریکی رپورٹ کے مطابق اب تک صرف 30 فیصدحماس سے تعلق رکھنے والے افراد ہی مارے گئے ہیں۔ ادھر اسرائیل کے فوجی بھی روز جان گنوا رہے ہیں اور ایک ہزار سے زائد بے گناہ اسرائیلی شہری ،جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں پہلے ہی حماس کے ابتدائی حملے میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ حماس کے قبضہ میں اسرائیل کے جو شہری ہیں ان کی رہائی کے لیے اسرائیل اور دیگر ممالک میں برابر احتجاج جاری ہیں ۔ ہم تو اپنی کئی تصانیف اور مضامین میں مشرق وسطیٰ میں تمام تنازعات کے پر امن حل کے لیے اسرائیل اور عرب ممالک پر ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں لیکن اب تو ہمیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہماری تمام محنت رائیگاں چلی گئی۔
یاد رہے کہ انسانی حقوق کی اہمیت تب تک باقی رہے گی جب تک کمزور اور مجبورانسان ظلم وستم، ناانصافی، جبروتشدد اور استحصال و استبداد کا نشانہ بنتے رہیں گے۔آج بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا ملک مہذب ممالک کی صف میں کھڑا نہیں ہوسکتا۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS