ریاستوں کے اختیارات میں مداخلت

0

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے نریندر مودی کی قیادت میں قومی سیاست پر تقریباً غیر متنازع تسلط قائم کرلیا ہے اورباقی ماندہ ریاستوں پر تسلط کی جدوجہد کررہی ہے۔اس جدوجہد میں سیاسی محاذ پرجو کچھ ہورہاہے، وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔اب ملک کے وفاقی نظام پر مکمل سیاسی بالادستی کی آرزو میں مرکز-ریاست تعلقات کو ایسے موڑ پر لے آئی ہے، جہاں سے ملک کی سالمیت کو ہی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔زرعی منڈی میں اصلاحات کے نام پر ریاستی حکومتوں کے آئینی دائرۂ کار میں در اندازی ہورہی ہے تو ایک قوم کے سیاسی نعرہ کے ذریعہ وفاقیت کی روح پر وار کیا جارہا ہے۔ مالی اور ادارہ جاتی اقدامات کے امتزاج سے ریاستوں کے اختیار پر ڈاکہ زنی ہورہی ہے تو انتظامی اداروں کے دائرۂ کار میں اضافہ کے ذریعہ ریاستوں میں امن و قانون اور نظم و نسق کی باگ ڈور بھی بالواسطہ ہاتھ میں لینے کیلئے کوشاں ہے۔
اسی کوشش کے تحت اس نے 2سال قبل سرحدوں کی حفاظت کرنے والی بارڈر سیکورٹی فورس کے دائرۂ عمل کو سرحد سے 50کلومیٹر تک وسیع کردیا تھا۔لیکن اب مرکز کا یہ فیصلہ اس کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ مرکز کے اس فیصلہ پر سپریم کورٹ نے سوالات اٹھائے ہیں اور اس نوٹیفیکیشن کی قانونی حیثیت کی بھی جانچ کا عندیہ دیا ہے۔
بارڈر سیکورٹی فورس(بی ایس ایف) وہ نیم عسکری دستہ ہے جس کے ذمہ پاکستان اور بنگلہ دیش سے متصل سرحدوں کی نگرانی ہے۔ اس فیصلہ پر پہلے تو ان تمام ریاستوں نے جہاں کی سرحدیں پاکستان اور بنگلہ دیش سے متصل ہیں، نے احتجاج کیا اور عدم تعاون کا رویہ اپنایا تھا۔ 2021 میں جاری ہونے والے وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں مرکز نے تلاشی، ضبطی اور گرفتاری کیلئے بی ایس ایف کے دائرۂ اختیار کو سرحدوں سے موجودہ 15کلومیٹر سے بڑھا کر 50 کلومیٹر کرنے کا جب فیصلہ کیا تو سرحدی ریاست مغربی بنگال اور پنجاب نے مرکز کے اس اقدام کو وفاقی اصولوں کی خلاف ورزی اور پولیس کے امن و امان کے اختیارات پر تجاوز قراردیا۔دونوںہی ریاستوں نے توسیع کے خلاف اپنی اپنی اسمبلیوں میں قرار دادیں پاس کیں۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے اسے ریاستی پولیس کے دائرۂ عمل کو محدوداور غیرمؤثر کرنے کی کوشش بتایااوراپنے انتظامی افسران کو یہ حکم بھی دیاتھا کہ وہ بی ایس ایف کے ساتھ تعاون نہ کریں لیکن عام آدمی پارٹی کی حکومت بننے کے بعد پنجاب اس کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گیا۔پنجاب نے بی ایس ایف کے آپریشنل دائرۂ اختیار کو 15 کلومیٹر سے بڑھا کر 50 کلومیٹر کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 131 کے تحت مرکزی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی بنچ نے 11 اکتوبر 2021 کے نوٹیفکیشن کے خلاف پنجاب حکومت کے اٹھائے گئے قانونی مسائل کا نوٹس لیا اور مرکز سے 6سوالات کیے ہیں جن میں پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت کے پاس بی ایس ایف ایکٹ 1968 کی دفعہ 139(1) کے تحت ریاست پنجاب میں بی ایس ایف کا دائرۂ کار بڑھانے کا اختیار ہے؟ اسی کلیدی سوال سے دوسرے ضمنی سوال بھی نکلے ہیںجن کا جواب مرکز کو دینا ہے۔
اصل معاملہ مرکز کے اختیار کاہی ہے۔ مرکز آج جس تیزی کے ساتھ ریاستوں کے اختیارات اور حدود میں مداخلت کررہا ہے، وہ ملک کے وفاقی ڈھانچہ کوختم کرنے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ آئین میں مرکز اور ریاستوں کے تعلقات کی صراحت کرتے ہوئے ایسے تمام معاملات کو مرکز کو ریاستوں کی مشاورت کا پابند بنایاگیا ہے جن سے ریاستوں کی حیثیت اور نظم و نسق کے معاملات متاثر ہوتے ہوں۔ہر ریاست کی اپنی الگ الگ لسانی، ثقافتی اور اقتصادی شناخت ہے۔ مرکز نے ماضی میں ریاستوں کو ان کی ترقی اور بہبود کے اقدامات کیلئے فنڈز مختص کرکے اپنی طاقت کا استعمال کیا تو فی زمانہ جی ایس ٹی کا استعمال کرکے ان کے مالی اختیارات کو محدود کیاگیا ہے۔ اب انتظامی سطح پر ایسے فیصلے کیے جارہے ہیں جن سے ریاستوں کی ناراضگی بڑھ رہی ہے۔اکثر ریاستوں کا الزام ہے کہ مالی امداد کے معاملے میں مرکزی حکومت ریاستوں سے یکساں سلوک کے بجائے تعصب سے کام لیتی ہے۔اخراجات پر کنٹرول اور نگرانی،آئینی اور سیاسی طور پر محفوظ معاملات میں ریاستوں کو زیر کرنے کیلئے طاقت کا بے دریغ استعمال تو سامنے کی باتیں ہیں۔بدعنوانی پر قابو پانے، ماؤ نواز باغیوں سے نمٹنے، امن و امان کو برقرار رکھنے اور امن کو یقینی بنانے کے نام پر ریاستوںکے دائرۂ اختیار میں مداخلت معمول بن چکا ہے۔
ہندوستان کی سالمیت اور استحکام کا تقاضا ہے کہ مرکز ریاستوں کے وجود کو اس کی تمام تر شناخت اورا ختیارات کے ساتھ تسلیم کرے اوراس کا احترام بھی کرے اور سرحدوں کی حفاظت کے نام پر ریاستوں کے اختیارات کو ختم کرنے کے بجائے افہام و تفہیم اور مشاورت کی راہ اختیار کرے۔ورنہ وفاقی نظام پر سیاسی بالادستی کی کوشش ہماری سالمیت کیلئے خطرہ کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS