کسانوں کی مہا پنچایت

0

مرکزی حکومت کے 3زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے کسان متحدہ محاذ نے اترپردیش کے مظفر نگر میں مہاپنچایت کرکے ایک بار پھرنہ صرف اپنی طاقت اور عوامی حمایت ومقبولیت کا مظاہرہ کیا،بلکہ مستقبل کے اپنے عزائم کا اعلان کرتے ہوئے مشن یوپی یعنی اگلے سال کے اوائل میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ہرانے کا بگل بھی بجادیا ، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اس طرح کی 8پنچایتیں پوری ریاست میں کریں گے ۔شہر شہراور گائوں گائوں گھوم کر اپنی مہم سے لوگوں کو جوڑیں گے اوربی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا کام کریں گے ۔جب سے کسانوں نے زرعی قوانین کے خلاف تحریک شروع کی ہے اور دہلی کی سرحدوں پر پچھلے 9ماہ سے ڈٹے ہیں ، اس دوران انہوں نے ریاست میں چھوٹی بڑی بہت سی پنچایتیں کیں ،لیکن مظفر نگر کی مہاپنچایت اب تک کی سب سے بڑی پنچایت تھی، جس میں ملک بھر سے 3درجن کسان یونینوں وتنظیموںاورتحریک سے وابستہ تمام بڑے کسان لیڈرشامل ہوئے۔پنچایت میں سیاسی نمائندگی یا دوسرے الفاظ میں سیاست کی آمیزش بالکل نہیں تھی۔البتہ اس کے بعد کسانوں کی حمایت میں بی جے پی کے ممبرپارلیمنٹ ارون گاندھی ، کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی،سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادواوردیگر لیڈروںکے بیانات ضرور آئے،لیکن خبر اورموضوع بحث مہاپنچایت ہی بنی ۔کیوں نہ بنے جب اس میں لاکھوں کسان شریک ہوئے۔کسانوں کا جم غفیراتنا زیادہ تھا کہ ناخوشگوار واقعات اور گڑبڑی سے بچنے کے لئے ریپڈ ایکشن فورس، پی اے سی اوریوپی پولیس کے 3800جوانوں، 3آئی پی ایس،11ایڈیشنل ایس پی،16ڈی ایس پی ،ڈاگ اسکواڈ اوربم ڈسپوزل دستے کو تعینات کیا گیا تھا ۔پنچایت کامیاب رہی اورانتظامیہ بھی امن قائم رکھنے میں کامیاب رہی ۔ہریانہ کا واقعہ نہیں دہرایاگیا اورکسانوں نے بھی حالات وواقعات سے سیکھ کر کوئی ایساقدم نہیں اٹھایاجس میں ان کانقصان ہو۔
مظفر نگر کی مہاپنچایت اس لحاظ سے کافی اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں نہ صرف ووٹ اورہندومسلم اتحاد کی باتیں ہوئیں بلکہ اللہ اکبر اورہرہر مہادیو کے نعرے اسٹیج سے لگاکر یہ کہا گیا کہ اب فرقہ پرستی اورفسادات برداشت نہیں کئے جائیں گے ۔ سرکار کی نجکاری کی پالیسی کی کھل کر مخالفت کرتے ہوئے سرکار کو متنبہ کیا گیا کہ آخری دم تک کسان لڑتے رہیں گے اور2024تک تحریک چلانے کو تیارہیں تاہم تحریک پرامن ہی چلے گی۔مشن یوپی اورمشن اتراکھنڈکے ساتھ ساتھ قومی سطح پر تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ کسان اپنے بل بوتے پر اپنے حقوق کے لئے لڑیں گے ۔مہاپنچایت میں ایک اہم اعلان بھارت بند کا تھا ، جس کی تاریخ پہلے 25ستمبر بتائی گئی تھی لیکن اب بڑھاکر 27ستمبر کردی گئی اوروہ مکمل بھارت بند ہوگا ۔ کسانوں کے قرضوں کی معافی ،گنے کی قیمت بڑھانے ، اس کابقایااورایم ایس پی پر ہر طرح کے غلوں کی خریداری نہ ہونے کے مسائل کو خاص طور سے اٹھایا گیا اورمرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ حکومت اترپردیش پر کھل کر تنقید کی گئی ۔
مظفر نگر کی مہاپنچایت میں یوں تو کسانوں کے مسائل پر خوب باتیں ہوئیں لیکن نجکاری کے مسئلہ کو اٹھاکر جس طرح تحریک کو عوامی بنانے کی کوشش کی گئی ، وہ کافی اہم ہے۔ چنانچہ مہاپنچایت میں کہا گیا کہ مرکزی حکومت نے سبھی کو دھوکہ دیا۔زرعی قوانین کسانوں کے ساتھ دھوکہ ہے تو نجکاری سے روزگار ختم ہورہے ہیں ۔ایسے میں یہ لڑائی صرف کسانوں کی نہیں بلکہ نوکری پیشہ ، مزدور اورمحنت کش تما م طبقات کی ہے ۔ اور جب تک زرعی قوانین واپس نہیں لئے جاتے اورایم ایس پی کی قانونی گارنٹی نہیں دی جاتی ،کسان دہلی بارڈر پر ڈٹے رہیں گے ۔چاہے ان کی جان ہی نہ چلی جائے، لیکن وہ سرکار کو ووٹ کی چوٹ دیں گے۔مظفر نگر فسادات کو یاد کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیاکہ سبھی کو ساتھ لے کر چلیں گے اگرکوئی سماج کو توڑے گا تو وہ جوڑنے کاکام کریں گے ۔ مہاپنچایت کا ایک مثبت پیغام یہ ہے کہ کسانوں نے جہاں اپنی طاقت دکھائی اور سرکار کو ہرانے کا عزم کیا وہیں بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے بلکہ پھر کہا کہ جب بھی سرکاربلائے گی وہ بات چیت کے لئے جائیں گے۔یعنی بات چیت کی کھڑکی ابھی بھی کھلی ہوئی ہے جس کافائدہ اٹھایاجاسکتا ہے۔اس وقت اسی کی ضرورت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پہل کون کرے اورموقف میں لچک کون پیداکرے ؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS