کنبہ پروری اور کانگریس کا مستقبل

0

پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ
رائے پور میں ہوئی کانگریس کی میٹنگ میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ نہرو گاندھی خاندان کی کانگریس پر مرکزیت برقرار رہے گی۔ سی ڈبلیو سی میںکانگریس ورکنگ کمیٹی کے انتخابات نہیں ہوئے ۔ 84سال کے ملکا ارجن کھڑگے کے روپ میں کانگریس کے نئے صدر بننے سے تین سال سے خالی پڑا ہوا عہدہ بھر گیا۔ سونیا گاندھی عبوری صدر کے طور پر کام کرتی رہیں تھیں۔ 2019کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کی کراری ہار کے بعد راہل گاندھی نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا گیا تھا۔ کانگریس کے اندر کے الیکشن بڑی تبدیلی کے درمیان تھا۔ اب کھڑگے خزانہ سمیٹ چکی کانگریس کو پٹری پر لانے کا چیلنج ہے، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کرپائیں گے اور کیا کانگریس غیر گاندھی کو اپنائے گی، کیا کھڑگے گاندھی خاندان سے آزاد ہو کر پارٹی کو چلاپائیں گے یا خود کو وفادار رکھتے ہوئے پارٹی کے ساتھ انصاف کرپائیںگے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا گاندھی خاندان کھڑگے کو آزاد صدر کے طور پر کام کرنے دے گا اور اب کانگریس میں گاندھی خاندان کا کیا رول ہوگا کیونکہ جنگ آزادی میں مرکزی رول ادا کرنے والی کانگریس 1929میں ہی خاندانی وارثت کے سائے میں آگئی تھی۔ کیا راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا والی کانگریس اور کھڑگے کی صدارت والی کانگریس ایک راہ پر ہوگی۔ کھڑگے کے صدر بن جانے سے کیا کانگریس ’ونشواد‘ اور خاندان پروری سے آزاد ہوپائے گی۔ ایسے کئی سوال ہیں جن کا جواب آنے والے وقت لگے گا۔
بہرحال کانگریس کی خاندان پرستی کی تاریخ پر گفتگو ضروری ہے۔ کانگریس نہرو گاندھی خاندان کے ارد گرد ہی رہی ہے۔ آزادی کے پہلے سے ہی مہاتما گاندھی کی مدد سے نہرو خاندان کانگریس کے مرکز میں آگیا تھا۔
انڈین نیشنل کانگریس کے قیام 1885میں بے شک اے او ہیوم کے ذریعہ عمل میں آیا تھا۔ جو ایک برطانوی سول سروینٹ تھے اور ہیوم کا مقصد کانگریس کے ذریعہ برطانوی سامراج اور ہندوستانیوں کے درمیان رابطہ اورمراسم شروع کرنا تھا، لیکن کانگریس نے جب پورے طور پر ہندوستان کی آزادی چاہنے والوں کے درمیان میں آئی اور مہاتما گاندھی اہم لیڈر بن گئے اس درمیان 1918میں موتی لال نہرو مہاتما گاندھی سے ملے اور فوراً ان کے پیروکار کا بن گئے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے 1919کے اجلاس میں موتی لال نہرو کانگریس کے صدر چنے گئے۔ بعد میں مہاتما گاندھی نے کانگریس کے صدر کے طور پر سردار پٹیل کی بجائے جواہر لعل نہرو کو وراثت دی تو اس کے پیچھے موتی لال نہرو نے جواہر لعل کو نوجوان ہونے کا حوالہ دے کر گاندھی جی کو اس بات کے لیے راضی کیا تھا۔ مہاتما گاندھی نے جواہر لعل نہرو کے لیے کانگریس کے صدر بنائے جانے کی راہ ہموار کی۔
راج موہن گاندھی کی کتاب ’ دی گڈ‘ بوٹ میں The Good Boatman کے مطابق یہ صرف موتی لال کی دلیل نہیں تھی جبکہ جواہر لعل نہرو کی ماں سروپ رانی کی بھی یہی رائے تھی جنہوںنے گاندھی تک پہنچ کر جواہر لعل کا نام آگے بڑھایا۔ 1929کے الیکشن نے کانگریس کے اندر خاندان پرستی کی بنیاد رکھی۔ 1946میں بھی ایک بار پھر مہاتما گاندھی نے سردار پٹیل کے حق میں کانگریس کے اندر اکثریت ہونے کے باوجود انہیں پیچھے ہٹنے کے لیے منع کردیا۔ پھر سے جواہر لعل نہرو کو صدر بنوا یا تھا۔ کانگریس کے صدر رہنے کے چلتے ہی جواہر لعل نہرو ملک کے پہلے وزیراعظم بنے اور سردار پٹیل نے وزیر داخلہ کے طور پر نمبر دو کا رول ادا کیا۔ تب ڈاکٹر راجندر پرساد نے اپنا مشہور تبصرہ دیا تھا۔
’ گاندھی نے ایک بار پھر گلیمرس نہرو کے لیے اپنے بھروسے مند لیفٹننٹ پٹیل کی قربانی دے دی ہے۔ نہرو نے اس کے بعد سال 1959میں کانگریس صدر کے طور پر اندرا گاندھی کے لیے راہ ہموار کی۔ لال بہادر شاستری بہت کم مدت کے لیے کانگریس کے صدر کے عہدے پر رہے۔ اندرا گاندھی نے کانگریس (آئی)بنا کر خاندان پرستی کی بنیاد کو اور مضبوط کیا۔
1981میں کانگریس (آئی)پھر سے انڈین نیشنل کانگریس بنائی گئی۔ موجودہ کانگریس اندرا گاندھی کی کانگریس ہے۔ نہ کہ وہ کانگریس جو جنگ آزادی کے دوران قائم ہوئی تھی۔ اس کے باوجود کانگریس پر نہرو خاندان اثررہا۔ اندرا گاندھی کے بعد راجیو گاندھی ، سونیا گاندھی ، راہل گاندھی صدر کے عہدے پر متمکن ہوئے۔ 1998میں سونیا گاندھی کے صدر بنے کے ساتھ اقتدار میں خاندان پرستی اور ایک ہی خاندان کی بالادستی نے غیر متوقع طور پر واپسی کی۔ سونیا گاندھی کا الیکشن پہلے کے الیکشن سے کافی الگ تھا اور یہ یقینا انتخاب کی شکل میں ہی ان کی تقرری ہوئی تھی۔ سونیا گاندھی نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس وقت کے الیکشن میں وہ انتخابی مہم چلانے والی اسٹار لیڈروں میں شامل تھیں۔ کانگریس صدر سیتا رام کیسری پر عہدے کو خالی کرنے کا دبائو بنا رہے تھے۔ 80سال کے کیسری کو کانگریس صدر کے عہدے سے ہٹا یا گیا تھا اور سونیا گاندھی کی تاجپوشی کرائی گئی تھی۔ سونیا گاندھی کانگریس پارٹی کی سب سے طویل عرصہ تک رہنے والی صدر بنیں۔
انہوںنے 1998سے 2017تک مکمل اختیارات کے ساتھ صدر کے عہدے پر یہ کام کیا۔ جب ان کے بیٹے راہل گاندھی صدر بننے سونیا گاندھی 2019 پارٹی کے صدر کے روپ میں واپس آئیں اور عبوری صدر کے روپ میں ان کا دور اقتدار میں اکثر کانگریس کے صدور کے دور سے زیادہ عرصہ تک چلا۔ 1997سے آج تک اس عہدے پر خاندان پرستی کا ہی قبضہ ہے۔ اب کانگریس صدر کے عہدے پر گاندھی خاندان کے باہر کے شخص کی تقرری کے بعد ان کے طریقۂ کار پر نظر ضرور رکھی جائے گی۔ کیونکہ اس وقت کانگریس کا وجود بچانے کے لیے خاندان کے باہر کے کسی شخص کو صدر بنانے لیے سوا کھڑگے پر دائو کھیلا گیا ہے۔ خاندان کو بھروسہ ہے کہ اصل قیادت اسی کے پاس ہوگی۔ اس لیے ششی تھرور کی جیت یقینی نہیں بنائی گئی ہے اور اشوک گہلوت کو راجستھان سے مرکز میں لانے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد آخر وقت میں گاندھی خاندان نے کھڑگے کو میدان میں اتارا ہے۔
کمال کی بات ہے کہ راہل گاندھی نوجوان لیڈر ہیں اور کانگریس نوجوانوں کو آگے لانے پر زور دیتی ہے ۔ اس کے باوجود صدر کے عہدے کے لیے کھڑگے کے روپ میں ایک عمردراز شخص کا انتخاب کانگریس نے کیوں کیا۔ جبکہ سب سے بڑی اور قدیم ترین کانگریس پارٹی کو نئی نسل کے لیڈر کی ضرورت ہے ۔ ایک اور اہم یہ ہے کہ یہ اعلان کیا گیا ہے کہ عورتوں، او بی سی اور ایس سی ایس ٹی کو 50فیصد ریزرویشن ملے گا ملکا ارجن کھڑگے کو سیاسی سنجیونی دے کر دوبارہ زندگی دے پائیں گے یا نہیں یہ 2024کے لوک سبھا او راسمبلی کے انتخابات میں واضح ہوجائے گا۔ پھر گاندھی خاندان کے کردار پر سبھی کی نظر رہے گی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS