انجینئر محمد خالد رشید علیگ: کوپ 27: اجلاس برائے اجلاس

0

انجینئر محمد خالد رشید علیگ

7نومبر کو بحیرۂ احمر کے کنارے آباد مصر کے خوبصورت شہر شرم الشیخ میں بیشتر ممالک کے نمائندے ایک بار پھر دنیا کی بدلتی آب و ہوا کے خطرات سے نپٹنے کے مقصد سے جمع ہوئے جن میں کئی ممالک کے سربراہان اور دنیا کے مشہوراین جی اوز کے نمائندے شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں کوپ کا اجلاس ہر سال کسی نہ کسی جگہ منعقد ہوتا ہے۔ گزشتہ اجلاس اسکاٹ لینڈ کے شہرگلاسگو میں 2021 میں منعقد ہوا تھا۔ 2020 میں کووڈ-19 کی وجہ سے کوپ کا اجلاس منعقد نہیں ہو سکا تھا۔ حالانکہ کووڈ نے ماحولیات پر کافی مثبت اثرات چھوڑے تھے۔
آب و ہوا کی تبدیلی سے لاحق خطرے کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے افتتاحی بیان کا متن پڑھ لینا کافی ہوگا۔ السیسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس مسئلے پر ہماری واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہماری واپسی کا مطلب ہوگا کہ ہم اپنی وراثت اور آنے والی نسلوں کو کھو دیں گے۔ آخر آب و ہوا کی تبدیلی کیا ہے اور اس کا حل تلاش کرنے میں پوری دنیا اتنی سنجیدہ کیوں ہے کہ ہر سال ایک عظیم اجتماع منعقد کر کے ہمیں آگاہ کر رہی ہے کہ موحولیاتی قیامت بس آنے ہی والی ہے۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانی ارتقا کے نتیجے میں ہم نے جو سنگ میل عبور کیے، ان کے نتیجے میں کرۂ ارض کی آب وہوا میں تبدیلی رونما ہو رہی ہے جس کو کلائمٹ چینج کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ہمارے روز مرہ کے عمل، مثلاً بجلی کا پروڈکشن، کاروں کا استعمال، بنیادی ڈھانچے روڈ، ڈیم اور بلڈنگوں کی تعمیر، صنعتوں اور پٹرول کے استعمال سے بڑی تعداد میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے اور ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے جس کے چلتے کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ماحولیات پر کام کرنے والے سائنس دانوں کے مطابق، اس سال یہ اضافہ ایک فیصد تک ہونے کا اندیشہ ہے۔ اگر اس اضافے کو روکا نہیں گیا تو اندازہ یہ ہے کہ صدی کے آخر میں کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں 2.7 ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہو جائے گا جس کے نتیجے میں دنیا کو زبردست باڑھ، سوکھے، سمندر کی سطح میں اضافے جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بڑھتے درجۂ حرارت کے نتیجے میں دنیا کے گلیشیئر پانی میں تبدیل ہوکر ایک قدرتی آفت کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی غرض سے اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے دنیا کے تمام ممالک سے ایسی تدابیر اختیار کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں جن سے درجۂ حرارت میں اس اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود رکھا جا سکے اور دنیا کو متوقع تباہی سے بچایا جا سکے۔ اس تنبیہ کو ہم گلوبل وارمنگ کے نام سے جانتے ہیں۔ملین ڈالر سوال یہ ہے:
متوقع تباہی سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ کاربن ڈائی آکسائیڈ فوسل ایندھن خاص کر کوئلہ اور پٹرول کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے اور ماحولیات میں تحلیل ہوکر کدورت پیدا کرتی ہے۔ حال ہی میں قارئین نے دلی میں اس کا تجربہ کیا ہے جب راجدھانی گیس چیمبر میں تبدیل ہو گئی تھی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ دلی کی کدورت کے لیے پنجاب اور ہریانہ میں چاول کی فصل سے بچی ہوئی پرالی کا جلایا جانا اور دلی کی سڑکوں پر زیادہ تعداد میں کاروں کی موجودگی ذمہ دار ہے جس کا حل یہی ہے کہ پنجاب کے کسانوں کو چاول پیدا کرنے سے روک دیا جائے اور دلی کے عوام کو سائیکل چلانے پر مجبور کیا جائے۔ اس صورت میں دلی کے عوام کو آلودگی سے نجات تو مل جائے گی مگر معیشت کا پہیہ رک جائے گا جس کا سنگین انجام پورے ملک کو بھگتناپڑے گا۔ کیا ہم اس کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
سنا ہے، کووڈ کے دوران اتراکھنڈ کے پہاڑ غازی آباد سے صاف دکھائی دینے لگے تھے لیکن کیا ہمیشہ کے لیے لاک ڈاؤن لگا کر وہی صورت حال قائم رکھی جا سکتی ہے؟ کلائمٹ چینج کا عالمی منظر نامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کے لیے جن تدابیر کی ضرورت ہے، ان کو عملی جامہ پہنانا ایک ناممکن نہیں تو مشکل کام ضرور ہے۔ دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک طرف وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو ارتقا کی وہ منازل عبور کر چکے ہیں جن میں سستی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، امریکہ کی حکومت کوئلے کے استعمال پر پابندی لگا سکتی ہے اور اپنے پاور پلانٹس کو متبادل توانائی سے چلا سکتی ہے لیکن ہندوستان یا جو بھی ترقی پذیر ممالک، جہاں ابھی بھی لاکھوں گھر بجلی کی سہولت سے محروم ہیں، کس طرح ایسی تدابیر کو عملی جامہ پہناسکتے ہیں؟ حالانکہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے لیکن ہر ملک کا اپنا مفاد ہے جس کا ثبوت اس وقت مل گیا تھا جس وقت ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کو پیرس معاہدے سے الگ کر لیاتھا اور یہ اعلان کر دیا تھا کہ امریکہ اس ماحولیاتی پروگرام کو مزید مالی امداد نہیں دے گا۔ ٹرمپ کا خیال تھا کہ امریکہ کے اپنے مسائل ہیں جن سے نپٹنا ان کی پہلی ترجیح ہے۔ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کر لی، ورنہ اس ماحولیاتی مشن کا مستقبل تقریباً تاریک ہو چکا تھا لیکن یہ حقیقت دنیا پر واضح ہو گئی کہ ہر ملک کی اپنی داخلی مجبوریاں ہیں جو اس سنگین مسئلے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی نے کوپ 26 کے اجلاس میں نہ صرف شرکت کی تھی بلکہ بہت واضح الفاظ میں ہندوستان کی ذمہ داریوں کا اعتراف کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ 2070 تک ہندوستان فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے رساؤ پر مکمل قابو پا لے گا۔ ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے ترقی کے انگنت سنگ میل عبور کرنے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں اس وعدے کو وفا کرنا آسان ہوگا؟
ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کو سستی انرجی کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا مشکل ہے کہ عالمی سطح پر اس سنگین مسئلے کا کوئی حل جلد نکل سکے گا۔ ایسی صورت میں دنیا کے تمام باشندوں کو انفرادی طور پر بھی کوشش کرنی ہوگی تاکہ اس دنیا کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ جگہ بنا سکیں۔ ہم اس کار عظیم میں اپنا حصہ ادا کرنے کے لیے مندرجہ ذیل کام کر سکتے ہیں:
1- توانائی کی بچت: اپنے گھروں، دفتروں اور دکانوں پر بجلی پنکھے وغیرہ غیر ضروری وقت میں بند کر دیں۔ پانی کا استعمال اتنا ہی کریں جتنا ضروری ہو۔ اپنے نلوں کی مرمت کرائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ ا ن میں کسی طرح کی لیکیج نہ ہو۔
2- کاربن ڈائی آکسائیڈ فوسل ایندھن خاص کر پٹرول، ڈیزل اور کوئلہ کے جلنے سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے اگر آپ کے پاس اپنی کار ہو تو بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ اسی وقت کار نکالیں جب کوئی اور متبادل نہ ہو۔ جتنا ممکن ہو سکے، سائیکل کا استعمال کریں۔ بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے پڑوسیوں سے بول کر بھی کار کے استعمال کو کم کیا جا سکتا ہے ۔
3- شجرکاری: شجر کاری ماحول سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ حکومتیں بھی شجر کاری پر توجہ دے رہی ہیں لیکن وہ شجر کاری سیاسی قسم کی ہوتی ہے۔ نیتا جی اعلان کروا کر پودے لگوا دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور زیادہ تر پودے اگلی برسات تک دم توڑ دیتے ہیں لیکن اگر انفرادی طور پر ہر شہری یہ عہد کرلے کہ اس کو اپنی زندگی میں ہر سال ایک پودا لگانا ہے اور پورے سال اس کی دیکھ بھال بھی کرنی ہے تو ہم کافی حد تک ماحول سے اس زہر،کاربن ڈائی آکسائیڈ، کو کم کر سکتے ہیں۔
کوپ کے اجلاس ہوتے رہیں گے۔ ہو سکتا ہے، ان کا کوئی مثبت نتیجہ بھی برآمد ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اجلاس صرف اجلاس برائے اجلاس ہی ثابت ہوں لیکن بطور شہری ہماری بھی ذمہ داریاں ہیں جن کو پورا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے جینے لائق ماحول چھوڑ سکیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS