ونیت نارائن: تفتیشی ادارے تنازع میں کیوں؟

0

ونیت نارائن

گزشتہ کچھ عرصے سے تنازعات میں گھری حکومت کی دو جانچ ایجنسیاں، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور سی بی آئی اپوزیشن کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اس تنازع میں ایک نیا موڑ آیا جب حال ہی میں ممبئی کی ایک خصوصی عدالت نے پاترا چال ری ڈیولپمنٹ سے جڑی منی لانڈرنگ معاملے میں ای ڈی کے ذریعہ شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے رائوت کی گرفتاری کو ’غیر قانونی‘ اور نشانہ بنانے کی کارروائی قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی رائوت کی ضمانت بھی منظور کرلی گئی۔ عدالت کے اس حکم نے اپوزیشن کو مزید مشتعل کردیا ہے۔ ریاستوں میں الیکشن کے دوران ایسے فیصلے سے اپوزیشن کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ اپوزیشن اپنے انتخابی اجلاس میں اس معاملے کو زورو شور سے اٹھانے کی تیاری میں ہے۔ سارا ملک دیکھ رہا ہے کہ پچھلے 8برسوں میں بی جے پی کے ایک بھی وزیر، ایم پی یا ایم ایل اے پر سی بی آئی یا ای ڈی کی نگاہ ٹیڑھی نہیں ہوئی۔ کیا کوئی اس بات کو مانے گا کہ بی جے پی کے سب لیڈر دودھ کے دھلے ہیں اور بدعنوانی میں ملوث نہیں ہیں؟
حالانکہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اور اسے جانچ ایجنسیوں کے برابر نہیں کیا جاسکتا، پھر بھی یہ دھیان دینے کے قابل ہے کہ اترپردیش کے سماجوادی لیڈر اعظم خان کے معاملے میں ہندوستان کے الیکشن کمیشن کو بھی عدالت کی سخت ریمارکس جھیلنی پڑی۔ جس طرح الیکشن کمیشن نے جلدی سے اعظم خان کی رکنیت ختم کرکے ضمنی انتخابات کا اعلان بھی کردیا ۔ سپریم کورٹ نے سوال کھڑا کیا کہ ایسی کیا مجبوری تھی کہ جو کمیشن کو فوراً فیصلہ لینا پڑا۔ اور اعظم خان کو اپیل کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ انصاف کا فطری تقاضا یہ ہے کہ ملزم کو بھی اپنی بات کہنے یا فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کا حق ہے۔ جبکہ اسی طرح کے ایک دیگر معاملے میں مظفر نگر ضلع کی کھتولی اسمبلی سے بی جے پی ایم ایل اے وکرم سینی کی رکنیت منسوخ کرنے میں ایسی جلدی نہیں دکھائی گئی۔ ایک ہی جرم کے دو معیار کیسے ہوسکتے ہیں؟
جہاں تک جانچ ایجنسیوں کی بات ہے۔ دسمبر 1997 کے سپریم کورٹ کے ’ونیت نارائن بنام حکومت ہند‘ کے فیصلے کے تحت ان جانچ ایجنسیوں کو غیر جانبدار اور خود مختار بنانے کے ارادے سے کافی تبدیلیاں لانے والے حکم دئے گئے تھے۔ اسی فیصلے کے تحت ان عہدوں پر تقرری کے عمل پر بھی تفصیلی ہدایات دی گئی تھیں۔مقصد تھا ان حساس جانچ ایجنسیوں کی زیادہ سے زیادہ خود مختاری کو یقینی بنانا۔ اس کی ضرورت اس لئے پڑی کیونکہ ہم نے 1993میں ایک پی آئی ایل کے ذریعہ سی بی آئی کے غیر فعال ہونے پر سوال اٹھایا تھا۔ تمام ثبوتوں کے باوجود سی بی آئی حزب المجاہدین کے حوالہ کے ذریعہ ہورہی دبئی اور لندن سے فنڈنگ کی جانچ کو دو برس سے دباکر بیٹھی تھی۔ اس پر شدید سیاسی دبائو تھا۔ اس درخواست پر ہی فیصلہ دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے مذکورہ حکم جاری کئے تھے، جو بعد میں قانون بنے۔
لیکن گزشتہ کچھ وقت سے ایسا دیکھا گیا ہے کہ یہ جانچ ایجنسیاں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روح کو نظر انداز کرکے چند چنندہ لوگوں کے خلاف ہی کارروائی کررہی ہے۔ اتنا ہی نہیں ان ایجنسیوں کے ڈائریکٹرز کی مدت میں توسیع دینے کے تازہ قانون نے تو سپریم کورٹ کے فیصلے کی اندیکھی کر ڈالی۔ اس نئے قانون سے اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ مرکز میں بھی جو بھی حکومت ہوگی وہ ان افسران کی سروس اس وقت تک توسیع کردے گی جب تک وہ اس کے اشارے پر ناچیں گے۔کیا شاید اس لئے یہ اہم تفتیشی جانچ ایجنسیاں سرکار کی بلیک میلنگ کا شکار بن رہی ہیں؟مرکز میں جو بھی حکومت رہی ہو اس پر ان جانچ ایجنسیوں کے غلط استعمال کا الزام لگتا رہا ہے۔ لیکن موجودہ سرکارپر اپوزیشن کے ذریعہ یہ الزام بار بار لگاتار لگ رہا ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریفوں یا اپنے مخالف خبر چھاپنے والے میڈیا اداروں کے خلاف ان ایجنسیوں کا لگاتار غلط استعمال کررہی ہے۔ لیکن یہاں پر سوال سرکار کی نیت اور ایمانداری کا ہے۔ سپریم کورٹ کا وہ تاریخی فیصلہ ان جانچ ایجنسیوں کو حکومت کے شکنجے سے آزاد کرنا تھا۔ جس سے وہ بغیر کسی دباؤ یا دخل کے اپنا کام کرسکے۔ کیونکہ سی بی آئی کو سپریم کورٹ نے بھی ’پنجرے میں بند طوطا‘ کہا تھا۔ اسی فیصلے کے تحت ان ایجنسیوں کے اوپر نگرانی رکھنے کا کام سینٹرل ویجیلنس کمیشن کو سونپا گیا تھا۔ اگر یہ ایجنسیاں اپنا کام صحیح سے نہیں کررہی تو سی وی سی کے پاس ایسا اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی ماہانہ رپورٹ میں جانچ ایجنسیوں کی خامیوں کا ذکر کریں۔
وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کے دیگر لیڈران گزشتہ 8برسوں سے ہر اسٹیج پر پچھلی حکومتوں کو بدعنوان اور اپنی حکومت کو ایماندر بتاتے آئے ہیں۔ مودی جی دم خم کے ساتھ کہتے ہیں ’نہ کھائوں گا نہ کھانے دوں گا‘ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اپوزیشن کے ذریعہ موجودہ حکومت کی نیت پر شک ہونابے بنیا نہیں ہوگا۔
ہمارا ذاتی تجربہ بھی یہی رہا ہے کہ پچھلے 8برسوں میں ہم نے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے خلاف کئی شکایتیں سی بی آئی، و سی وی سی میں درج کرائی ہیںلیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی، جبکہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ان ایجنسیوں کو خود مختاری فراہم کرنے میں ہمارے کردارکے اعتراف میں ہماری شکایات پر فوراً کارروائی ہوتی تھی۔ ہم نے جو بھی معاملے اٹھائے، ان میں کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں رہا ۔ جو بھی مفاد عامہ میں مناسب لگا اسے اٹھایا۔ یہ بات ہر بڑا سیاستداں جانتا ہے اور اس لئے جن کے خلاف ہم نے عدالتوں میں لمبی لڑائی لڑی، وہ بھی ہماری انصاف پسندی اور شفافیت کا احترام کرتے ہیں۔ یہی جمہوریت ہے۔ موجودہ حکومت کو بھی اتنی جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ اگر اس کے کسی وزارت یا محکمہ کے خلاف ثبوت کے ساتھ کرپشن کی شکایت آتی ہے تو اس کی غیر جانبدارانہ جانچ ہونے دی جائے۔ شکایت کرنے والے کو اپنا دشمن نہیں بلکہ خیر خواہ سمجھا جائے۔
معاملہ سنجے رائوت کا ہو، اعظم خان کا ہو یا موربی پل حادثہ کو جانچ ایجنسیوں کو غیر جانبدار ہونا بہت ضروری ہے۔ عوام کے درمیان ایسا پیغام جانا چاہیے کہ جانچ ایجنسیاں اپنا کام خود مختاری اور غیر جانبداری سے کررہے ہیں۔ کسی بھی قصوروار کو بخشا نہیں جائے گا چاہے وہ کسی بھی نظریے یا سیاسی جماعت کا حامی ہو۔ قانون اپنا کام قانون کے دائرے میں ہی کرے گا۔٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS