بچوں کی شادی کی لعنت ختم کی جائے: پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

0
بچوں کی شادی کی لعنت ختم کی جائے: پروفیسر نیلم مہاجن سنگھ

پرو فیسر نیلم مہاجن سنگھ
’’جب بچوں کے بچے ہوتے ہیں ‘‘۔ نام کی کتاب جو کہ بھوون ریبھو کی تحریر ہے، اس لعنت کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی دن کے موقع پیش کرتی ہے۔ اس کتاب کا اجراء لڑکیوں کے عالمی پر ہوا تھا۔ جہاں ’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘ تحریک وزیر اعظم نریندر مودی کانعرہ اور اپیل ہے۔ وہیں مصنف کا مقصد نوعمر بچوں اور بچیوں کو جسمانی اور دماغی استحصال سے بچانا ہے۔ مصنف بھون ریبھو عالمی شہرت یافتہ اور نوبیل امن یافتہ رضا کار اور بچپن بچائو آندولن کے قائد کیلاش ستیارتھی کے بیٹے ہیں۔ اس مہم اور مقصد میں سینئر صحافی انل پانڈے ’’ انڈیا چلڈرن کے ذریعہ ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ دہلی میں غیر ملکی پریس نمائندگان کے کلب کے دفتر میں ریبھو سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب ان کی کتاب when Children Have Children :Tipping Point To End Child Marriage ریلیز ہوا تھا۔ اس موقع پر یہ 250اضلاع میں بچوں کی شادی کو روکنے کے عزم کے ساتھ ہوا تھا۔
بچوں اور خواتین کے تحفظ اوران کو باختیار بنا نامیرا ایک ایشوہے، ایسے ملک میں جہاں نابالغ لڑکیوں کو شادی کا جواڑا پہنا دیا جاتا ہے۔ بچپن کی شادی سے نجات دلانا ایک خواب ہے، یونیسیف کا اندازہ ہے کہ مذکورہ بالا کتاب ہندوستان میں 2030تک بچوں کی شادی کو کم کرکے اس شرح کو 5.5تک لانے کے خواب پورا کرنے کا ایک مربوط منصوبہ پیش کرتی ہے، اگر ہم اس حد تک لانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بچوں کی شادی کی شرح کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوگی اورہمیں دیگر متبادلوں پر انحصار کرنا نہیں پڑے گا۔
بھوون ریبھو خود ایک سینئر وکیل ہیں اور انہوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا سے احکامات پاس کر کے بچوں کے تحفظ کے قوانین بنائے ہیں۔ وہ بچوں اور خواتین کی حفاظت، جسم فروشی، بچہ مزدور، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے سماجی مسائل کو روکنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ بھون ریبھو کی جدوجہد کے نتیجے میں، سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد، جووینائل جسٹس بورڈ نے منظم طریقے سے اقوام متحدہ کے دستاویزات، پروٹوکول اور اداروں کو پیش کیا ہے۔ ویبھو کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن میں بھی ایک سرگرم رول ادا کرتا ہے۔ ہندوؤں، مسلمانوں، پسماندہ ذاتوں اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات میں کم عمری کی شادی اور بچوں کے جنسی استحصال زیادہ پا یا جاتا ہے۔ انسداد بچہ شادی قانون ’پر وہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ2006′ عملی طور پر لاگو نہیں ہوا ہے۔ مسلم پرسنل لا قانون 1937 میں بھی دفعات کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ بھوون ریبھو کی کتاب ’جب بچوں کے بچے ہیں‘ ایک معلوماتی کتاب ہے، جو بچوں کی شادی کے خلاف جنگ میں اہداف کے حصول کے لیے ٹھوس ایکشن پلان اور اسٹریٹجک بلیو پرنٹ پیش کرتی ہے۔ بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن اور خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے سپریم کورٹ کے وکیل بھون ریبھو 160 این جی اوز کے مشیر ہیں۔ اس کتاب کا اجراء بچپن کی شادی کے متاثرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے وابستہ افراد نے کی۔ افتتاح کے موقع پر کم عمری کی شادی کے متاثرین نے اپنے تجربات بیان کیے ہیں۔ اس نے بتایا کہ کس طرح بچپن کی شادی کی وجہ سے اسے جسمانی اور ذہنی تشدد، نوعمر حمل اور نوزائیدہ بچوں کی موت جیسی لاتعداد، ناقابل برداشت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ’چائلڈ میرج فری انڈیا‘ مہم کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جو 2030 تک ’جب بچوں کے بچے ہیں‘سوسائٹی اور خواتین کی قیادت میں تقریباً 300 سے زیادہ اس لعنت سے متاثرہ اضلاع میں چل رہے ہیں؛ اور اس طرح ہر سال 15 لاکھ لڑکیوں کو بچپن کی شادی کے چنگل میںپھنسنے سے بچانے کی کوششوں میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ’پکیٹ‘ حکمت عملی کے ذریعے حکومت، کمیونٹیز، این جی اوز اور بچپن کی شادی کے خطرے سے دوچار لڑکیوں کو پالیسیوں، سرمایہ کاری، سرگرمیاں اور بیداری اور ایک ایسا نظام بنا یا ہے جہاں بچوں کی شادی فروغ نہیں پا سکتی اور بچوں کی شادی کی لعنت سے لڑنے کے لیے ایک مہم ہے۔ احتیاطی، نگرانی کی ٹیکنالوجیز کی مانگ پر مل کر کام کرنا۔
کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن کے ملکی سربراہ روی کانت نے بچوں کی شادی کے خلاف جنگ میں ’جب بچوں کے بچے ہوتے ہیں‘ کو ایک بروقت اور اہم مداخلت قرار دیتے ہوئے کہا، ‘ہم، سول سوسائٹی اور حکومت دونوں، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ بچوں کی شادی سے پاک ہندوستان۔ یہ کتاب ہمیں ایک ضروری اسٹریٹجک منصوبہ فراہم کرتی ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی بہت بڑی لیکن بکھری ہوئی کوششوں کو ایک ٹھوس شکل اور سمت دیتی ہے۔ بچوں کی شادی کے خلاف بیداری پروگراموں، اسٹریٹ ڈراموں، بچوں کی شادی کے خلاف عہد، ورک شاپ، بیداری، جلوسوں اور دیگر مختلف سرگرمیوں کے ذریعے ہندوستان کے ہزاروں دیہاتوں میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ کم عمری کی شادی کو ہر قیمت پر ختم کیا جانا چاہیے۔ 16 اکتوبر 2023 چائلڈ میرج فری بھارت ابھیان کی پہلی سالگرہ ہے اور تب سے لے کر اب تک کمیونٹی ممبران، این جی اوز اور سرکاری ایجنسیوں کی کوششوں سے ہزاروں بچوں کی شادیوں کو روکا جا چکا ہے۔جھارکھنڈ میں بچوں کی شادیوں کی شرح قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہیں۔ فیملی ہیلتھ سروے-5 (2019-2021) کے مطابق، ملک میں 20 سے 24 سال کی 23.3 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر ہونے سے پہلے کر دی گئی، جبکہ جھارکھنڈ میں یہ اوسط 32.2 فیصد ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے اور لڑکیوں کو کم عمری کی شادی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پریہ کتاب آخری نہیں ہے کیونکہ یہ بھی۔ کم عمری کی شادی بچوں پر نہ صرف جسمانی اذیت کا سبب بھی بنتی ہے بلکہ صحت سے متعلق بہت سے مسائل کا باعث بنتی ہے۔ بھون ریبھو اسے ’تعلیم میں بحران‘ کہتے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت ہند کے تعاون سے اس مہم کو قومی تحریک میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ میرا مطالبہ ہے کہ بچپن کی شادی کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ بھون ریبھو کے ساتھ ڈاکٹر: پوروجیت پرہراج، ڈاکٹر لکشمی کانت دویدی، دانش رضا، وجے سنگھ، کیلاش ستیارتھی چلڈرن فاؤنڈیشن کے ایچ ایس۔ پھولکا کی حصہ داری اور تعاون کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ایک خود کفیل اور بااختیار ہندوستانی کے لیے ہندوستان کے بچوں کی حفاظت، تعلیم، صحت کی نگرانی اور سماجی ترقی ضروری ہے۔ بچے ملک کا مستقبل ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی، تجزیہ کار ہیں اور سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS