ّ فلسطین خونِ مسلماں کا گواہ : ریاض فردوسی

0

ریاض فردوسی
یورپ،برطانیہ اور فرانس نے مسلمانوں کی دشمنی کے سبب یہودیوں کا جائز اور ناجائز ساتھ دیا،اس انسانی دشمنی سلوک کی وجہ سے صیہونی تحریک زور پکڑنے لگی، جس کا مقصد یہودیوں کے لیے الگ ریاست کا قیام تھا۔سن 1947 میں اقوام متحدہ نے من مانے طریقے سے ووٹنگ کر کے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے ،جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔ تاہم 14 مئی 1948 کو اسرائیل کا قیام ہوا،اقوام متحدہ کے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف اگلے ہی دن اردن، مصر، شام اور عراق نے اسرائیل پرحملہ کر دیا۔اس میں برطانیہ، فرانس،یوروپ اور دیگر ظالم ملکوں کی مدد سے اسرائیل نے فتح حاصل کی۔10 لاکھ سے زیادہ فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیلی فوجیوں نے ظالم ملکوں کی مدد سے ان کے گھروں سے نکال دیا۔جو جانے کو تیار نہ تھے ان کا بے دردی سے قتل کیا گیا،ان کے مال و املاک لوٹے گئے، عورتوں کے ساتھ زنا بالجبر کیا۔اس خطے پر ظالمانہ قبضے کے بعد اسرائیلی درندگی بڑھنے لگی،اسرائیل نے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے کوڑے برسائے،انسانیت کو شرمندہ کرنے والے ظلم مظلوم مسلمانوں پر کئے گئے،ان کا صرف اتنا گناہ ہے کہ وہ اللہ اور محمدعربی ﷺ پرایمان لائے ہیں۔انہیں اسباب کی وجہ سے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ نے اس تنازعے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔اسرائیل نے امریکہ اور دیگر مسلمانوں کی دشمنی میں لبریز ملکوں کی مدد سے عرب اتحاد کو شکست دے کر مصر سے غزہ کی پٹی، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت ویسٹ بینک یعنی غرب اردن چھین لیا۔مصر کو سینائی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔1973 میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اپنے علاقے چھڑانے کے لیے حملہ کیا جسے ’یوم کپور‘ جنگ کہا جاتا ہے۔ چھ سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن کا معاہدہ کر لیا اور سینائی مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اردن نے بھی کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے مصر کی تقلید کی۔غرب اردن میں بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی فلسطینی حکومت ہے۔تاہم غرب اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 86 فیصد فلسطینی ہیں ،جبکہ 14 فیصد اسرائیلی جبراََ آباد کار ہیں۔زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70 ، 80 اور 90 کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھیں ،مگر گزشتہ 20 برسوں میں ان کی آبادیوں میں دوگنا اضافہ ہوا۔اب 49 فیصد صرف فلسطینی مسلمانوں کی آبادی ہے،اسرائیلی فوج نے جھوٹے جھوٹے الزام لگا کر مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا اور ان کے مال و املاک ضبط کیا ہے۔اسرائیل ناجائز قبضہ کرکے ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی سہولیات فراہم کرتا ہے اور ان بے ایمان اور درندہ صفت لوگوں کی حفاظت اسرائیل کی فوج کرتی ہے۔
بی بی سی اردو اور عالمی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق!
حماس کی جانب سے کیے گئے حملوں میں 600 اسرائیلیوں کی ہلاکت، ہزاروں زخمی اور درجنوں کو عسکریت پسند گروپ کے ہاتھوں یرغمال بنانے کے نتائج میں اسرائیلی فوجی کارروائی کے نتائج میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اتوار کی شام کو اعلان کیاگیا ہے کہ غزہ کی پٹی پر صیہونی جارحیت کے نتیجے میں اب تک 413 شہریوں کی شہادت کی تصدیق کی گئی ہے۔ شہداء میں میں 78 بچے اور 41 خواتین شامل ہیں۔واضح رہے کہ ہفتہ کے دن حماس کی جانب سے اسرائیلی فوج کے مطابق 3000 راکٹ اسرائیل کی سرزمین پر داغے گئے،جس کے بعد حماس سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند گاڑیوں، موٹرسائیکلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے علاقے سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے۔اسرائیلی فضائیہ نے بھی جوابی حملہ کیا تھا، بمباری میں 250 سے زائد مسلمان شہید ہوگئے تھے۔اس جنگ اور اسی طرح کی دیگر جنگوں کے بہانے اسرائیل حکومت کا مقصد ہوتاہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کے پہلے قبلے کو شہید کرنا ہے۔اسرائیلی لوگوں کی بھیڑ نے کئی دفعہ مسجد اقصیٰ میں توڑ پھوڑ کی ہے۔جس طرح بھارت میں بابری مسجد کو سلسلے وار پلانگ کرکے شہید کیا گیا ہے، اسی طرح مسجداقصی شہید کیا جائے گا۔
حل:دنیا کے تمام ممالک کو چاہیے کہ فلسطین اور اسرائیل دونوں ممالک کو اس بات پر آمادہ کریں اور دباؤ ڈالیں کہ اقوام متحدہ کے 1948ء کے فیصلہ کو تسلیم کر لیں،یعنی فلسطین اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے اور اسرائیل فلسطین کے جتنے علاقے قبضے کیے ہوئے ہے وہ سب فلسطین کو واپس کر دے۔ فلسطین کو عالمی ادارہ کے فیصلہ سے اگر اتفاق نہ بھی ہو تو اس فیصلہ کے خلاف حق اختلاف رکھتے ہوئے اس فیصلہ کو عملاً (Under Protest) تسلیم کرے۔ہمیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب صلح حدیبیہ ہوا تھا تو اس میں سارے فیصلے قریش کے حق میں تھے، پھر بھی حضور ﷺ نے قریش کے اس صلح کو تسلیم کر لیا تھا، یہاں تو فلسطین کو ایک الگ ریاست دیا بھی جا رہی ہے،اس فیصلہ کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی اور حل نظر نہیں آتا۔
آخر میں:آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یا نا پوچھیں، آپ انہیں یہ ضرور بتایا کیجئے کہ ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کہ:
1- یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔
2-حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔
3- اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔
4- حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔
5- حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔
6- چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا ’’اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ‘‘ یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا ،جس کا نام بعد میں ’’وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔
7- حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔
8- حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔
9- اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔
10- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔
11-ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔
12-قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف لانا، اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔
13- اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔
14-فلسطین ہی ارض محشر ہے۔
15-اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔
16- اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔
17- فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آپ ﷺ کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔
18- حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔
19- سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔
20-سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔
21- وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر
کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔
22-اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو بیان کرتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS