تحصیل علم اور بچوں کی تربیت

0

گھر ہی تعلیم و تربیت کا گہوارہ ہوتا ہے۔ تربیت بغیر تعلیم کے ادھوری رہ جاتی ہے اور تعلیم بغیر تربیت کے پرخطر بن سکتی ہے۔ تعلیم تقریر کے ذریعے دی جاسکتی ہے لیکن تربیت تقریر کو قبول نہیں کرتی۔ تربیت مثال کے ذریعے دی جاتی ہے۔ بچہ ماں باپ کو دیکھتا ہے اور ان کے طور طریقوں کی نقل کرتا ہے، ان کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ جو کچھ وہ خود کرتے ہیں اور بچے کے سامنے اسے برا کہتے ہیں۔ بچہ اسے برا نہیں سمجھے گا لیکن ماں باپ کو بالآخر برا سمجھنے لگے گا کہ یہ کرتے کچھ ہیں اور کہتے کچھ ہیں۔ جب اس کا ذخیرۂ الفاظ بڑھ جائے گا تو وہ اس طرزِ عمل اور اندازِ گفتگو کو ظاہرداری اور ریاکاری کے نام سے پکارے گا اور اسے برا سمجھنے کے باوجود وہ غیر شعوری طور پر اسی طرز عمل کو اختیار کرے گا۔ یہ دو رخی اس کے رگ وپے میں سرایت کرجائے گی اور اس کی شخصیت کو کھوکھلا کرے گی۔ ریاکاری سے شخصیت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔
انگریزی میں ایک لفظ ’اِنٹے گریٹی‘ (Rntegrity) ہے جس کا ترجمہ اردو میں ’’سا لمیت‘‘ ہونا چاہئے؛ حالانکہ ہم سرکاری اصطلاح میں اسے ایمان داری کہتے ہیں اور اس سے مفہوم لیتے ہیں کہ یہ شخص روپئے کے معاملے میں کچا نہیں ہے۔ طمع اسے سیدھے راستے سے نہیں ہٹاسکتی۔ رشوت لینے کی اسے عادت نہیں۔ مذکورہ لفظ میں ایمان داری کا یہ روایتی تصور شامل ہے، لیکن اس میں اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے اور اس کا سب سے اہم پہلو ہے ظاہر اور باطن کا ایک ہونا ہے؛ برائیوں سے دور رہنے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ یہ شخص استقامت رکھتا ہے۔ یہ پل میں تولہ پل میں ماشہ نہیں ہوتا۔ طیش اور پشیمانی، خوف اور افسردگی کے مراحل جلد جلد طے نہیں کرتا۔ یہ بھاری بھرکم ہے۔ دنیا اعتماد کے ساتھ قیاس کرسکتی ہے کہ فلاں صورت حال، فلاں حادثہ، فلاں مصیبت، فلاں کامیابی یا فتح مندی، فلاں شکست میں اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ وہ شخصیت ہی کیا جس میں سا لمیت کا استر نہ لگا ہوا ہو۔ جس کے طرز عمل کے متعلق اس کے جاننے والے صحیح قیاس نہ کرسکیں ۔ وہ قدرت کے بڑے بڑے مظاہر سے ہم عناں رہتا ہے۔سورج کے بارے میں ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ کدھر سے نکلے گا، کدھر جائے گا، کہاں ڈوبے گا۔ چاند کی رفتار بھی متعین ہے۔ دن رات، جوار بھاٹا، موسموں کا ردو بدل سب کے بارے میں بڑی حد تک یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے۔ یہی حال سا لمیت رکھنے والے افراد کا ہے۔
یوں تو سا لمیت طبیعت کا جزو ہوتی ہے لیکن اسے مثال سے اور گرد و پیش سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اپنے بچوں کو ہم نصیحتیں ضرور کریں کہ زندگی کے نشیب و فراز، اونچ نیچ بے شک سمجھائیں لیکن نصیحت اور تلقین کو روش اور عمل سے دل نشیں کرنا بے حد ضروری ہے ورنہ بچہ ایک کان سے سنے گا دوسرے کان سے اڑا دے گا۔ وہ شے جو دونوں کانوں کے درمیان دیوار بن کے کھڑی ہوجاتی ہے اور کان پڑی بات کو دماغ (اور دل) سے نکلنے نہیں دیتی وہ ہے مثال۔ ماں باپ، بہن بھائی، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے اطوار و کردار کی مثال۔ سوچئے ہم اپنے بچوں کو بری صحبت سے بچانا کیوں چاہتے ہیں، اسی لئے کہ بروں کی مثال کا ان پر برا اثر پڑے گا۔ اسی منطق سے بچے کے والدین کو چاہئے کہ اچھی سے اچھی مثال بچے کے سامنے لائیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام برائیوں کو چھپاکر انجام دیا جاسکتا ہے۔ ہر بچہ گھر کا جستجو پیشہ بھیدی ہوتا ہے۔ اس سے کوئی بات چھپائی نہیں جاسکتی اور چھپائیے گا تو ظاہر اور باطن کے درمیان فاصلہ اور بڑھ جائے گا۔ آپ کی شخصیت مضبوط ہونے کے بجائے اور کھوکھلی ہوجائے گی اور بقیہ عمر سا لمیت مرحومہ کا ماتم کرنے میں گزرے گی۔ اچھی مثال پیش کرنا ہے تو اپنے کردار کو سدھاریئے اور سنواریئے تاکہ بچے کے آئینے میں اس کا عکس اچھا پڑے۔
آپ آئے دن ’’اونچی‘‘ سوسائٹی میں اطوار کی آب و تاب دیکھتے ہیں۔ شکریہ، نوازش۔ کرم، التفات، معذرت خواہی، لہجہ کی تراش خراش، منجے ہوئے صیقل گرفتہ، آداب محفل، بانکپن اور سج دھج کے ساتھ نشست و برخاست، تسلیم، آداب، کورنش، پہلے آپ، میں کس لائق ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ ان شائستہ اطوار کا اپنا ایک مقام ہے۔ تہذیب کی چمک دمک ان سے ہے لیکن اطوار کتنے ہی دیدہ زیب کیوں نہ ہوں، اگر اخلاق اور خیر خواہی لہو کی طرح ان کی رگوں میں نہیں دوڑتی تو وہ نیرس ہیں بے جان ہیں۔ اطوار جب اخلاق اور انسان دوستی سے بے تعلق ہوجاتے ہیں تو وہ محاسن کے بجائے معایب بن جاتے ہیں۔ لوگ ان سے دھوکا کھانے لگتے ہیں۔ یہ بات ضرور بچوں کو سمجھانے کی ہے کہ اطوار کی جڑیں اخلاق اور کردار میں پیوست نہیں ہوتیںتو اطوار کمھلا جاتے ہیں، تصنع اور بناوٹ پر انھیں تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ آداب و اطوار کو اخلاق و کردار سے اُستوار کیجئے تو بات ہے ورنہ اطوار ایسا مکان بن جانتے ہیں جو مکین کیلئے ترستے رہتے ہیں۔
بہت سے والدین جنھیں اپنے بچوں کی تعلیم کی عملی فکر ہوتی ہے، علوم کی اس چڑھتی ہوئی دنیا میں علوم کی پیش رفت سے خود کو بہرہ ور اس لئے رکھتے ہیں کہ تحصیل علم میں اپنے بچے کی مدد کرسکیں اور اس کی تونسی ہوئی جستجو کو آنچ بھی دیں اور سیراب بھی کریں۔ وہ کاوش کے ساتھ پڑھتے رہتے ہیں تاکہ اپنے بچے کو پڑھا سکیں، اس کے سوالات کا جواب دے سکیں، اس کی تلاش کی داد دے پائیں۔ یہ رہی بات تعلیم کی۔ جہاں تک تربیت کا تعلق ہے ایسے دور اندیش اور خیر خواہ والدین پر واجب ہے کہ اپنے اخلاق و اطوار کو سنواریں، اپنے کردار کو محکم بنائیں اور اپنی شخصیت کو سالم رکھیں۔ شکستہ، دو نیم اور بکھری ہوئی، ہوس پیشہ، ڈھل مل یقین شخصیت کی مثال بچے کے اخلاقی اور ذہنی نشو و نما کیلئے سم قاتل بن سکتی ہے، لہٰذا بچے کی فکر ہے تو خود کو سنواریئے، ذہنی اور اخلاقی طور پر اور اسے برے ماحول اور بری صحبت سے حتی المقدور بچائیے۔ جو والدین کم علمی اور ذرائع ناپیدی کی وجہ سے خود ایسا نہیں کرسکتے یا جن کی سیرت میں کجی بری طرح گھس گئی ہے، انھیں چاہئے کہ اپنے بچوں کو ہمسایہ کے اہل کردار اور باخبر افراد سے استفادے کا موقع فراہم کریں۔ فریب دہی اور ریاکاری سے تو ہر صورت میں بچا سکتا ہے۔ اس کیلئے نہ تو علم کی شرط ہے نہ مادی وسائل کی۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ زبان کو اگر عمل کی تائید حاصل نہ ہو تو وہ تربیت کیلئے مثبت اثرات سے محروم رہتی ہے لیکن منفی اثرات اس کے بہر حال بہ کثرت رونما ہوتے ہیں۔ آپ اگر سخت کُھرّی، تلخ اور ترش زبان استعمال کرتے ہیں اور اس میں مغلظات ٹانکتے رہتے ہیں تو بچے بھی وہی زبان استعمال کریں گے۔ سخت کلامی اور ترش روئی اور دشنام طرازی ان کی بھی عادت بن جائے گی۔ بات چیت میں اگر آپ گلا پھاڑتے ہیں اور پہلی فرصت میں کف بہ دہن اور کف بہ آرنج ہوجاتے ہیں تو بچے بھی اسی انداز سے گفتگو کرنا سیکھ جائیں گے۔ آپ سوچ سمجھ کر نعمی اور شائستگی کے ساتھ بات نہیں کریں گے تو بچے کہاں سے یہ طرزِ گفتگو، یا اسلوب پذیرائی سیکھ پائیں گے، شومیِ قسمت کہ شمالی ہندوستان کی بعض مسلم بستیوں یا آبادیوں میں محاربانہ تبادلۂ خیالات کی روش عام ہے۔ سوچ سمجھ کر، غور و فکر کے بعد، نتائج کو نگاہ میں رکھ کر بات یا فیصلہ کرنے کی عادت سے ہماری کچی پکی قیادت اور ہماری اشتعال پیشہ صحافت نے ہمیں محروم کر دیا ہے۔ ہمارے بچے گھر میں اور محلہ میں جب فیصلہ کی یہ سرعت، جذبے کا یہ استیلا، لہجے کی یہ تلخی، سوقیت کی یہ بھرمار دیکھتے ہیں تو وہ بھی اس سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ شاعر جو تجربہ اور فکر دونوں سے فائدہ اٹھاتا ہے، کہا گیا ہے کہ اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی لگا دے تو عمارت آسمان تک بھی پہنچ جائے تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ سوچئے کیا آپ معماری کا حق ادا کر رہے ہیں۔ کیا آپ اپنے بچوں کے کردار کی تعمیر صحیح خطوط پر کر رہے ہیں؟ مالی نونہالوں کی حفاظت اور پرورش کتنی محنت اور لگن کے ساتھ کرتا ہے اور دم جب ہی لیتا ہے جب وہ تناور درخت بن جاتے ہیں۔ کیا ہم اپنے گنتی کے نونہالوں کے ساتھ وہ بھی نہیں کرسکتے جو باغباں سیکڑوں پودوں کے ساتھ کرتا ہے۔
ابھی تک ہم نے ایک اور عنصر کا ذکر ہی نہیں کیا جو بچوں کے رجحانات، عادات، اطوار اور سیرت پر بڑے شد و مد کے ساتھ اثر انداز ہورہا ہے اور جس کے اثرات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ روئے سخن میڈیا کی طرف ہے۔ ٹی وی، وی سی آر اور بالخصوص سنیما اور ٹی وی کے بیرونی سرچشمے باڑھ کی طرح اخلاق و کردار تہذیب و تمدن کو بہا لے جارہے ہیں اور ہم بے بسی کے انداز سے ٹک ٹک دیکھ رہے ہیں، دم کھینچنے کا یارا نہیں۔ اس کی روک تھام کرنا ضمیر انسانیت اور قلب تہذیب کا فرض ہے۔ اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا اور ان لوگوں پر بھی واجب ہے۔ ہندستان کی زمامِ اختیار جن کے رعشہ دار ہاتھوں میں ہے۔ ہمارا ملک بالخصوص اس کی اکثریت مغرب کی چمک دمک سے خیرہ ہوگئی ہے۔ مغرب کی ہر برائی اسے بھلائی نظر آتی ہے اور اقدار پر ثابت قدمی کو وہ بنیار پرستی قرار دیتی ہے۔ بین الاقوامی کمپنیوں اور میڈیا نے ان ساری احتیاطی دیواروں کو گرا دیا ہے جو باشعور اور ذمہ دار والدین اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کیلئے کھڑی کر دیا کرتے تھے۔ اب تو جدھر دیکھئے چٹیل میدان ہے۔ اخلاقی وبائیں بے روک ٹوک دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چشم زدن میں پہنچ جاتی ہیں۔ جب لو چلتی ہے یا پالا پڑتا ہے تو مالی پودوں کی حفاظت کیوں کر کرتا ہے؟ لو چلتی ہے تو انھیں دونوں وقت پانی دیتا ہے تاکہ پودا لو کا سامنا کرسکے۔ پالا پڑتا ہے تو وہ جھانکڑ اور پتوار سے پودوں کو ڈھانک دیتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ پانی بھی دیتا ہے۔ قوم کے نونہالوں کی حفاظت کیلئے یہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ پہلے مدرسے میں جسے ماں کی گود اور باپ کا شانہ کہا جاتا ہے۔ بنیادی انسانی اور اخلاقی قدریں بچے کے دل و دماغ میں پیوست کر دی جائیں، تاکہ بے مہار مادیت کی سموم انھیں کھلا نہ سکے اور نہ انھیں سرد مہری کے تجارتی انداز اور ٹھنڈی ہوس کی عریانی کا پالا مارسکے۔ شاعر نے کہا تھا ؎
اس ہوش پیشہ دور نے دلوں کو ٹھنڈے مکانوں میں تبدیل کر دیا ہے جن میں نہ محبت کی گرم جوشی ہے، نہ اخلاص کی روشنی، نہ حیا کی تابانی۔ خدارا بچائیے اپنے نونہالوں کو پالے اور لو دونوں سے بچائیے۔
لیکن آپ یہ کریں گے کیسے؟ رفتارِ زمانہ کے خلاف چل کر پنپیں گے کیسے؟ ہر طرف سے جب تند و تیز ہوائیں آرہی ہوں تو آپ چراغوں کو بچائیں گے کیسے؟ طوفان کے مقابلے کیلئے تیاری درکار ہے اور ہم خواب خرگوش میں ہی عافیت ڈھونڈ رہے ہیں۔ جو بیدار ہیں وہ مذہب کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں، غافل اس بات سے کہ وہ ظواہر مذہب کو مذہب سمجھ بیٹھے ہیں۔ اصل اصول کو چھوڑ کر فروعات پر تکیہ کر رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کم اہم باتوں پر ہمت مامور ہے اور بنیادی اور اصولی قدروں سے ہمارا طرزِ فکر محروم ومہجور ہے۔ اس دور میں جبکہ ہر لمحہ اپنے ساتھ ایک انقلاب لا رہا ہے، ہم بے بصیرت اور تنگ نظر تقلید پر مصر ہیں۔ گھر کو آگ لگی ہو تو کیا آپ سمجھ داری کہیں گے کہ گھر کا سربراہ خورد سال بچوں کو چھوڑ کر میز، کرسی، صندوق اور کپڑوں کو باہر نکالنے اور بچانے میں لگ جائے۔ جہاں دین کی نیو کھودی جارہی ہو وہاں ہم دیوار کے نقش و نگار کی حفاظت میں منہمک ہیں۔ ہم خطرے کی آہٹ سے اسی طرح بے خبر ہیں جس طرح ہم تناسب کے احساس سے محروم ہیں۔ اس ناؤ میں ہندو مسلمان دونوں سوار ہیں لیکن کشتیِ مسکیں اسے مسلمان ہی سمجھ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کر رہے ہیں۔ (میرحامد کی تحریر سے ماخوذ)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS