خواتین جیل میں بھی غیر محفوظ

0

آج مارچ کی یکم تاریخ ہے ٹھیک ایک ہفتہ کے بعد8مارچ کو پوری دنیا میں عالمی یوم خواتین منایاجائے گا۔خواتین کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کی قسمیں کھائی جائیں گی۔ مرکز کی مودی حکومت ’ ناری شکتی‘ کی وندنا کرے گی اور ریاستی حکومتیں بھی اپنے اپنے طور پر صنفی مظالم سے پاک معاشرے کے قیام کا حلف اٹھائیں گی۔ عالمی سطح پر 1975سے ہر سال یہ مشق دوہرائی جارہی ہے۔ دوسرے ممالک میںیہ مشق کتنی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے، اس سے قطع نظر ہندوستان جنت نشان میں اس مشق کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے بلکہ ہولناک معاشرتی جبر کی شکار ہونے والی خواتین کی تعداد میں مسلسل اضافہ درج کیا جا رہا ہے۔ شہر، سڑک، بازار، چوک چوراہوں پر خواتین سے بدسلوکی کاسلسلہ تو دراز ہے ہی، سنگینوں کے سایہ میں جیل کے اندر بند خواتین کی عزت و عصمت بھی محفوظ نہیں ہے بلکہ جیلوں میں قید خواتین اس معاملہ میں آزاد خواتین سے کہیں زیادہ جبر وستم کی شکار ہیں۔مغربی بنگال میں تو یہ صورتحال انتہائی سنگین ہوگئی ہے۔ مشرقی ہندوستان کی اس ریاست میں واقع مختلف جیل جنہیں یہاں کی حکومت ’ اصلاح خانہ‘ کہتی ہے، خواتین قیدیوں کیلئے جہنم سے زیادہ بھیانک ہے۔جیلوں میں قید خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے۔ جن سرکاری افسران پر خواتین کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی ہے، وہی افسران اور کارکنان خواتین کو اپنی ہوس کا شکار بنارہے ہیں۔
جیلوں میں حاملہ ہونے والی قیدیو ں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متعلق ایک چونکادینے والی رپورٹ سامنے آئی ہے۔کلکتہ ہائی کورٹ میں داخل کی گئی اس رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ جیل میں قید خواتین قیدی دوران حراست حاملہ ہو رہی ہیںاورجیلوں میں اب تک کم از کم 196 بچے پیدا ہوچکے ہیں،جن کی ولدیت نامعلوم ہے۔حالیہ دنوں 62خواتین کے یہاں پیدائش ہوئی ہے جن میں سے11بنگلہ دیشی خواتین ہیں۔
یادرہے کہ 2018 میں کلکتہ ہائی کورٹ نے ریاست کی مختلف جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کی موجودگی، ان کے رہن سہن، خوراک اور طبی سہولیات پر نظر رکھنے اور وقتاً فوقتاً عدالت کو رپورٹ پیش کرنے کیلئے مرکزی حکومت کی شروع کی گئی اسکیم ’ نیائے متر‘ کے تحت مغربی بنگال میں مقرر کیے گئے ’نیائے متر‘ تاپس بھنج کو ذمہ داری دی تھی۔جنہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ریاست کی 60 جیلوں میں تقریباً 26 ہزار قیدی ہیں اور ان میں سے 10 فیصد خواتین ہیں جن میں اکثر کا مسلسل جسمانی استحصال کیاجارہاہے۔ 2023 تک کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے رپورٹ میں کہاگیا ہے جن خواتین قیدیوں نے 196 بچوں کو جنم دیاہے، وہ بچے بھی اس وقت جیلوں میں ہی رہ رہے ہیں۔ اس وقت کولکاتاشہر میں واقع علی پور سینٹرل جیل میں بھی ایک خاتون قیدی حاملہ ہے اور وہاںدوسری خواتین قیدیوں کے15بچے بھی رہ رہے ہیں۔
اپنی رپورٹ میں ’نیائے متر ‘نے اس صورتحال اور جیلوں میں خواتین کے جنسی استحصال کو روکنے کیلئے کئی سفارشات کی ہیں۔ تجویز دی ہے کہ تمام ضلعی جج اپنے دائرۂ اختیار میں آنے والی جیلوں کا دورہ کریں اور معلوم کریں کہ کتنی خواتین قیدی وہاں قیام کے دوران حاملہ ہوچکی ہیں۔یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ تمام اضلاع میں چیف جوڈیشل مجسٹریٹ خواتین قیدیوں کو جیل بھیجنے سے قبل حمل کے ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کریں۔ ریاست کے تمام تھانوں میں حمل کی جانچ کے انتظامات کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اپیل بھی کی گئی ہے کہ خواتین کے سیل میں مردوں کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔یہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد کلکتہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ٹی ایس شیواگنم اور جسٹس سپرتیم بھٹاچاریہ نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالت نے اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ معاملہ فوجداری مقدمات کی سماعت کرنے والی ڈویژن بنچ کے سامنے رکھنے کی ہدایت دی ہے۔خواتین کے ساتھ زیادتی، بدسلوکی اور جبر و ظلم کی کہانی صرف جیلوں میں ہی نہیں ہے بلکہ شہر و اضلاع میں بھی خواتین پرمظالم کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ جنوبی 24پرگنہ کے سندیش کھالی کی خواتین آج بھی اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کررہی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ صورتحال صرف بنگال میں ہے بلکہ ملک کے دوسرے مقامات پر بھی خواتین کے ساتھ یہی سلوک ہورہا ہے، نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق 31 دسمبر 2022 تک ملک کی مختلف جیلوں میں 1,537 خواتین قیدی 1,764 بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
جیل سی محفوظ جگہ پر قانون کے رکھوالے ہی اگر خواتین کی بے حرمتی اور جنسی استحصال کے مرتکب ہوں تو پھر خواتین کی حفاظت کے تمام دعوے غلط اور جھوٹے ہی سمجھے جائیں گے۔ ایسے میں عالمی یوم خواتین منانے اور ’ ناری شکتی‘ کی وندنا کرنے سے زیادہ ضروری ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومتیں خواتین کے مکمل تحفظ کی عملی کارروائی کریں بالخصو ص جیل میں قید خواتین کوذہنی، جسمانی اور جنسی اذیت سے محفوظ رکھنے کا سامان کریں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS