امریکہ کی جمہوری قبا پر ٹرمپ کا ہاتھ

0

امریکہ کے 300سال پرانے جمہوری نظام کو زخم آلود کرنے کے بعد بالآخر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ہار تسلیم کرلی ہے اور اگلے 20 جنوری تک اقتدار نومنتخب صد رجوبائیڈن کوسونپنے کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔لیکن اس کیلئے بھی انہوں نے ’پرامن تبدیلی اقتدار‘ کے بجائے ’ منظم تبدیلی اقتدار ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جو یہ اشار ہ کرتا ہے کہ اب بھی ان کے ذہن میں کچھ نہ کچھ تحفظات باقی ہیں۔ گزشتہ سال4نومبر کو ہونے والے انتخابی نتائج کے بعد امریکی آئین کے مطابق باقاعدہ امریکی کانگریس نے آج امریکہ کے46ویں صدر کے طور پر جوبائیڈن اور نائب صدر کیلئے کملا ہیرس کی جیت کی توثیق کردی ہے۔لیکن اس سے قبل ڈونالڈ حامیوں نے جو ہنگامہ آرائی کی اور جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کیلئے کانگریس ارکان کو روکنے کا جو حربہ استعمال کیا اس کی نظیر دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں نہیں ملتی ہے۔ 
ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی پارلیمنٹ کو یرغمال بناکر پارلیمنٹ کی عمارت کیپٹل بلڈنگ پر بزن بول دیا۔اسلحہ بدست حملہ آوروں کے تیورا تنے جارحانہ تھے کہ اگر سیکورٹی عملہ انہیں روکنے کیلئے ان کے سامنے جاتا تو انہیں بھی ان کے حملہ کا شکار ہونا پڑتا۔دنیا بھر کی میڈیا پر گشت کررہی وہاں کی تصویریں اور ویڈیوزبتارہے ہیں  کہ صورتحال انتہائی سنگین تھی۔ محافظوں اور سیکورٹی اہلکاروں نے اس بے قابو بھیڑ سے خود کو بچاتے ہوئے انہیں قابو میں کرنے کیلئے فائرنگ کی جس میں چار افراد مارے جاچکے ہیں اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔تشدد کے اس سنگین واقعہ کے بعد واشنگٹن ڈی سی کی انتظامیہ نے اپنے شہر میں 15 روزہ عوامی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا ہے۔
 کیپٹل بلڈنگ کے باہر جس وقت ٹرمپ حامی یہ انارکی پھیلارہے تھے اس وقت اندرون عمارت قانون سازیہ کے دونوں ایوانوں امریکی کانگریس اورا مریکی سینیٹ کے ارکان کا مشترکہ اجلاس ہورہا تھا جس میں جو بائیڈن اور کملا ہیرس کی انتخابی جیت کی توثیق کی جانی تھی۔صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتا ہے کہ واقعہ کے بعد پوری عمارت کو لاک ڈائون کردیا گیا، داخلی اور خارجی دروازوں کو سیل کردیا گیا۔ ارکان کانگریس کو اپنی جان بچانے کیلئے کیپٹل بلڈنگ کی خفیہ سرنگوں سے باہر بھاگنا پڑا۔ 
دنیا بھر کے حکمراں طبقہ سے دشمنی مول لینے والے ڈونالڈ ٹرمپ کی یہ خواہش تھی کہ وہ طاقت اور جبروت کے جس مسند پر متمکن ہیں اسے کبھی انہیں خالی نہ کرناپڑے۔اپنی اس خواہش کی تکمیل کیلئے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا لیکن انتخابی نتائج ان کی آرزوئوں پر اوس ڈال گئے۔ صاف ستھرے، غیرجانبدارانہ اور شفاف طریقہ سے ہونے والے انتخاب کے نتائج کو اپنی خواہشوں کے برخلاف پاتے ہوئے ڈونالڈٹرمپ نے دھاندلی اوربدعنوانی کے الزامات بھی لگائے، عدالت سے مداخلت کی اپیل کی، ووٹوں کی دوبارہ اور سہ بارہ گنتی کروائی لیکن وائے حسرتا ۔۔۔!آخری حربہ کے طور پر انہوں نے نتائج کی توثیق کے آئینی عمل کو سبوتاز کرنے کی کوشش کی اور ارکان پارلیمان پر زور ڈالنے کیلئے اپنے حامیوں کا جتھہ کیپیٹل بلڈنگ کی سنگی دیواروں سے سر پھوڑنے کیلئے روانہ کردیا۔اطلاعات بتاتی ہیں کہ ٹرمپ نے اجلا س سے عین قبل اپنے حامیوں سے تقریباً ایک گھنٹہ تک خطاب کیا اور اپنی جیت کے حق میں دلائل کا طومار باندھتے ہوئے کہا کہ وہ انتخاب میں شکست قبول نہیں کریں گے، ان کے ڈیموکریٹک حریف نے انتخاب جیتنے کیلئے دھاندلی کی ہے۔ جب کہ انہوں(ٹرمپ) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں اپنے حامیوں کوبالواسطہ حملہ پر اکساتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دھاندلی ہونے پر آپ کو اپنی شکست قبول نہیں کرنی چاہیے۔ سمع و طاعت کے تار سے بندھے ہوئے ٹرمپ کے ’ اندھ بھکتوں ‘ نے آمنا و صدقنا کہا اور کیپٹل بلڈنگ پرہی کمند آزما ہوگئے۔ 
امریکی قوم جسے اپنے آئین اور جمہوری روایتوں پر اس قدر ناز ہے کہ وہ بزعم خود کو عالم انسانیت کا نجات دہندہ سمجھتی ہے اور اقوام عالم کومساوات، برداشت، تحمل، ایثار، قربانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کادرس دیتی ہے۔ایک جاہ پرست سیاست داں کے بہکاوے میں آکر اس کے ایک طبقہ نے ایسا قدم اٹھایا ہے جو امریکہ کے قومی اور ملکی وقار کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکہ کی بے توقیری کا سبب بن گیا۔بظاہر کیپٹل بلڈنگ پر ہونے والا ٹرمپ حامیوں کاحملہ درحقیقت امریکی آئین پر حملہ تھا۔ ہوس اقتدار میں ہوش کھودینے والے ٹرمپ نے امریکہ کی300سالہ پرانی جمہوری قبا پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ دنیا کو درس جمہوریت دینے والی امریکی قوم ٹرمپ کے خلاف کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کا یہ مطالبہ بجا ہے کہ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی کارروائی کی جانی چاہیے اور انہیں20جنوری سے قبل ہی ان کے عہدہ سے برطرف کیا جانا چاہیے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS