طویل ہوتی کسان تحریک

0

زرعی اصلاحات سے متعلق متنازع قانون کے خلاف جاری تحریک چند روزہ یکسانیت کے بعد ایک بار پھر سے جارحانہ رخ لینے والی ہے۔ کسا ن رہنما اورا ن کے حامی دہلی کی سرحدوں پر ایک بار پھر سے بھیڑ کو اکٹھاکرنے کی سرگرم کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ دہلی کی تینوں سرحدوں پر بھیڑ بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کے ساتھ ہی 18فروری کو ریل روکو تحریک کا بھی اعلان کیاگیا ہے۔ حالانکہ کسان تنظیمیںاس سے قبل حکومت سے بات چیت کے اگلے مرحلہ کیلئے تیار ہوگئی تھیں اور حکومت سے کہاتھا کہ وہ انہیں بات چیت کیلئے وقت اور تاریخ بتادے۔ کسانوں کا یہ فیصلہ وزیراعظم کی راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران کسانوں سے کی گئی اپیل کے جواب میں تھا۔ لیکن حکومت تین چار دن گزر جانے کے باوجود کسانوں کو بات چیت کیلئے وقت اور تاریخ نہیں بتاپائی ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک 12 ادوار میں بات چیت ہوچکی ہے۔ آخری مذاکرہ22جنوری کو ہواتھا اور کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا ہے۔ اس پس منظر میں یہ امکان کم ہی ہے کہ اگلے کسی دور کی بات چیت میں مسئلہ کا حل نکل پائے گا۔ کسان قانون واپس لینے کے اپنے موقف پراڑے ہوئے ہیں اور حکومت بھی قانون واپسی سے انکار کی ہٹ پر قائم ہے۔حکومت نے بار با ر واضح الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ وہ کسی بھی حال میں قانون واپس نہیں لینے والی ہے۔ خود وزیراعظم نریندر مودی، وزیرزراعت نریندر سنگھ تومر اور حکومت کے دوسرے وزرا نے یہ کھل کر کہا ہے کہ قانون واپس نہیں لیے جائیں گے۔ دوسری طرف کسان تنظیمیں بھی قانون واپسی سے کم کسی چیز پر تیار نہیں ہیں۔ کم از کم سپورٹ پرائس(ایم ایس پی) کی بابت حکومت قانونی یقین دہانی کرانے کے بجائے زبانی اعلانات اور وعدے وعید کررہی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے ایم ایس پی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی اور پہلے کی طرح ہی جاری رہے گی۔ اس زبانی وعدے پر کسانوں کایقین کرنا ممکن نہیںہے۔ اس طرح دونوں جانب سے یہ اڑیل رویہ مسئلہ کے حل کے بجائے اسے مزید پیچیدہ بنارہاہے۔ضد، انا اور ہٹ دھرمی کا یہ رویہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہاجاسکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ کسانوں کے مطالبات جائز ہیں اور ان کا حق ہے کہ ان کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔لیکن اس معاملے میں جس طرح سیاست ہورہی ہے وہ سنگین تشویش کی بات ہے۔آئے دن کچھ پارٹیوں کے لیڈر ایک دوسرے پر کسانوں کے مفاد سے کھلواڑ کرنے، کسانوں کو بہکانے اور تحریک کو ہوا دینے کے الزامات لگا رہے ہیں۔اس معاملے میں حکمراں جماعت پیش پیش ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ تحریک کو مل رہی عوامی حمایت ختم ہوجائے۔اس مقصد کیلئے اب تک طرح طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ تحریک کو بدنام کرنے کیلئے غیر ملکی ہاتھ تک کا شوشہ چھوڑاگیا ہے۔کسان تنظیموں کے مابین اختلاف پیدا کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ادھر حزب اختلاف کی پارٹیاں بھی کسانوں کے کاندھے پر سوار ہو کر اپنی اپنی ڈفلی بجارہی ہیں۔اس سیاسی کھینچ تان سے ڈرہے کہ کسان تحریک کہیں اپنے راستہ سے بھٹک نہ جائے۔
اختلاف رائے، احتجاج اور پرامن مظاہرہ کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے۔ جمہوریت،اختلاف رائے رکھنے والوں کو یہ آزادی دیتی ہے کہ وہ پرا من احتجاج اور مظاہرے کے ذریعہ حکمرانوں سے اپنے مطالبات منواسکیں یا مذاکرات کے ذریعے ان کا حل نکالا جاسکے۔ جمہوری معاشرہ میں اختلاف رائے کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اسے بغاوت، سازش یا ملک دشمنی قرار دے کر دبانایا ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ لیکن کسان تحریک کے معاملے میں محسوس ہورہاہے کہ حکومت کا ہر قدم اس تحریک کو ختم کرنے کی سمت ہی اٹھ رہاہے۔ مذاکرات کے نام پر تاخیری حربے کا استعمال، طاقت اور میڈیا کے ذریعہ تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش، کسان لیڈروں کے خلاف کارروائی سے جہاں دنیا بھر میں ہندوستان کی بدنامی ہورہی ہے وہیں کسان تحریک کے کاندھے پر سوار ہوکرا پنا قدبڑھانے کی کوشش کررہی حزب اختلاف بھی کسان کاز کو نقصان پہنچارہی ہے۔
کسا ن لیڈران اپنی تحریک کو سیاست کے تعفن سے پاک رکھ کر ہی اپنا مقصد حاصل کرسکتے ہیں۔کسان رہنمائوں کو چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے بہکاوے میں آکر تحریک کو نیا رخ دینے اور جارحانہ رویہ اپنا نے سے قبل حکومت کی جانب سے بات چیت کیلئے تاریخ اور وقت کا انتظار کرلیں، ہوسکتا ہے کہ اگلے دور کے مذاکرات میں کوئی حل نکل ہی آئے۔طویل ہوتی تحریک نہ کسانوں کے حق میں مناسب ہے اور نہ ملک ہی اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS