میڈیسن کا نوبل انعام

0

نوبل انعام کی اپنی اہمیت ہے۔ یہ کئی بار قسمت سے ملتا ہے مگر اکثر کارہائے نمایاں انجام دینے پر ہی ملتا ہے۔ اسے حاصل کرنے والوں کو عالمی شہرت مل جاتی ہے۔ دنیا کے اکثر لوگ ان سے واقف ہو جاتے ہیں۔ کئی شخصیتوںکو تو نوبل ملنے کے بعد ہی ان کے اہل وطن نے زیادہ بہتر طور پر جانا۔ 2020 کا نوبل میڈیسن پرائز امریکہ کے ہاروے جے- آلٹر اور چارلس ایم-رائس کے ساتھ برطانیہ کے مائیکل ہافٹن کو دیا گیا ہے۔ وہ اس انعام کے واقعی حقدار تھے، یہ گفتگو کا الگ موضوع ہے کہ دیگر لوگوں کے کام ان کے کام کے مقابلے میں کس حد تک اہمیت کے حامل تھے لیکن یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ نوبل میڈیسن پرائز کے لیے ناموں کا بہتر انتخاب کیا گیا، کیونکہ ہاروے جے- آلٹر، چارلس ایم-رائس اور مائیکل ہافٹن نے انسانوں کے تحفظ کے لیے واقعی بڑا کام کیا ہے۔ ہیپیٹائٹس سی وائرس کی ان کی کھوج معمولی نہیں۔ اس کھوج کی وجہ سے ہر سال لاکھوں زندگیوں کی حفاظت کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ہیپیٹائٹس سی وائرس سے متاثرہ لوگوں کے لیے اب مکمل مایوسی کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ امید لاکھوں لوگوں کو توانائی دینے والی ہے کہ ان کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
میڈیسن کا نوبل انعام دینے والی جیوری کا یہ کہنا بجا ہے کہ ’تاریخ میں پہلی بار (ہیپیٹائٹس سی وائرس کی) اس بیماری کا علاج کیا جا سکتا ہے، یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ دنیا کی آبادی سے ہیپیٹائٹس سی وائرس ختم کر دیا جائے گا۔‘  ہاروے جے- آلٹر، چارلس ایم-رائس اور مائیکل ہافٹن کے کام کا اندازہ لگانے کے لیے یہ جان لینا ہی کافی نہیں ہے کہ ان تینوں نے خون میں پیدا ہونے والے اس ہیپیٹائٹس کے خلاف قیمتی تعاون دیا ہے جو لوگوں میں سروسس اور لیور کینسر کی وجہ بنتا ہے اور دنیا کے اہم طبی مسئلوں میں سے ایک بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے بلکہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس بیماری سے دنیا بھر میں کتنے لوگ متاثر ہیں اور ہر برس یہ کتنے لوگوں کی جانوں کے اتلاف کی وجہ بنتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، دنیا بھر میں ہیپیٹائٹس سی سے متاثر ہونے والوں کی تعداد 7کروڑ ہے یعنی دنیا کے تقریباً 0.90 فیصد لوگ ہیپیٹائٹس سی سے متاثر ہیں۔ یہ تعداد کورونا وائرس سے دنیا بھر میں متاثر ہونے والوں کی تعداد سے تقریباً دوگنی ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ جتنی دہشت کورونا وائرس کی ہے اتنی دہشت ہیپیٹائٹس سی وائرس کی نہیں ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ جس کی دہشت کم ہو، وہ سنگین بھی کم ہو۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ہیپیٹائٹس سی کی وجہ سے دنیا بھر میں ہر سال 4 لاکھ لوگوں کو جانیں گنوانی پڑتی ہیں یعنی روزانہ تقریباً 1100 لوگوں کی موت کی وجہ ہیپیٹائٹس سی وائرس بنتا ہے۔ ایسی بیماری سے نجات دلانے کے لیے ہاروے جے- آلٹر، چارلس ایم-رائس اور مائیکل ہافٹن نے کام کیا ہے، اس لیے یہ امید بندھی ہے کہ ہر سال 4 لاکھ لوگوں کو مرنے سے بچانے میں کامیابی ملے گی۔ امید یہ بھی بندھی ہے کہ 7کروڑ لوگ اب جینے کے ارمان پورے کرپائیں گے، اپنے ان خوابوں کو پورا کر پائیں گے جو مایوسیوں کے اندھیرے میں کہیں گم ہوگئے تھے۔ جہاں تک نوبل انعام کی بات ہے تو اس کی تاریخ میں ایک سے زائد بار عجیب فیصلے ہوئے۔ براک اوباما کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تو یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی کہ عالمی امن کے لیے انہوں نے ایسا کیا کام کیا ہے ۔ اسی طرح  مہاتما گاندھی کو امن کا نوبل انعام کیوں نہیں دیا گیا، یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے۔ مہاتما گاندھی کی موجودگی میں جن لوگوں کو امن کا نوبل انعام دیا گیا، کیا وہ ان سے زیادہ اس انعام کے حقدار تھے؟ ظاہر سی بات ہے، نہیں تھے۔
ہاروے جے- آلٹر، چارلس ایم-رائس اور مائیکل ہافٹن کو ملنے والا یہ نوبل انعام میڈیسن کے میدان میں کام کرنے والے لوگوں کو تحریک دے گا کہ اس طرح کی بیماریوں سے لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش کریں تاکہ یہ دنیا واقعی جنت نشان بنائی جا سکے، کیونکہ دنیا کا بھلا لیڈروں کی بیان بازیوں سے نہیں، اسی طرح کے کاموں سے ہوگا۔ اس طرح کے کاموں کا فوری فائدہ تو نظر آتا ہی ہے، رہتی دنیا تک فائدہ ہوتا رہتا ہے لیکن دنیا میں کم لوگ ہیں جو اس طرح کے کاموں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں اور بہتوں کے لیے باعث تحریک بنتے ہیں۔ ہاروے جے- آلٹر، چارلس ایم-رائس اور مائیکل ہافٹن خوش نصیب ہیں کہ وہ اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب رہے اور میڈیسن کے میدان میں وہ کر دکھایا جو کم لوگ کر پاتے ہیں۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS