ہاتھرس اور بلرام پور

0

اترپردیش  میںگزشتہ کئی برسوں سے لاقانونیت کا ناچ ہو رہا ہے۔چوری، ڈاکہ زنی، قتل و غارت گری، معصوم بچیوں سے زیادتی اور پھر ان کا قتل معمول کی بات ہوگئی ہے۔ انسانی فضیلت و شرف اور عزت و حرمت کا کوئی تصور باقی نہیں رہ گیا ہے اور انسانیت منہ چھپائے پھر رہی ہے۔ بدبختی، ظلم وشقاوت کی یہ انتہا ہے کہ جن کے کاندھوں پر قانون نافذ کرنے کی ذمہ داری ہے وہ کھلے عام ظالموں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ہاتھرس میں ایک دلت لڑکی کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہندوستان کے ’مہذب ‘ کہے جانے والے5ہزار سال پرانے معاشرہ کی پیشانی پر بدنما داغ تو ہے ہی،اس پر ستم یہ ہوا کہ اہل خانہ کو بتائے بغیر بزور طاقت پولیس انتظامیہ نے مظلوم کی لا ش چھین کر اسے راتوں رات نذرآتش کرکے لاش کی جو بے حرمتی کی اس نے انسانیت کے سینہ میں ایک گہرا زخم ڈال دیا ہے۔ ابھی اس زخم پر کھرنڈ بھی نہ آپایاتھا کہ اسی ریاست کے بلرام پور سے ایک اور دلفگار خبر نے حساس دلوں کو پارہ پارہ کردیا۔بلرام پور میں22سال کی ایک ناکتخدا دوشیزہ کی بے حرمتی اور آبروریزی کے بعد ظالموں نے اس کے دونوں ہاتھ اور دونوںپائوں کاٹ ڈالے اورپیٹھ بھی توڑدی۔ ایک ایسی ریاست میں جہاں ’رام راجیہ ‘ قائم ہوجانے کا ڈھول بجایا جارہا ہے یکے بعد دیگرے پیش آمدہ یہ دونوں واقعات بتارہے ہیں کہ حکمراں بے حس اورظالم درندے سزاسے بے خوف ہوچکے ہیں۔
ہاتھرس اور بلرام پور کے واقعہ نے پورے ملک کو مشتعل کردیا ہے اور عام لوگوں میں سخت غم و غصہ اور شدید ناراضگی ہے۔ ہاتھرس کی دلت لڑکی کے ساتھ جودرندگی کی گئی تھی اسے سن کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ 14ستمبر کو چار درندوں نے حیوانیت اور بربریت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے لڑکی کا اغوا کرکے اسے اجتماعی طور پر ہوس کا نشانہ بنایا اور اس کی زبان کاٹ ڈالی تھی اور ریڑھ کی ہڈی توڑنے کے بعدا س کی ہلاکت یقینی بنانے کیلئے دوپٹہ سے اس کا گلا گھونٹ دیاتھا۔ پھر اسے مردہ سمجھ کران درندوں نے اسے کھیت میں چھوڑ دیا تھا۔اس کے جسم پر جس طرح سے زخم کے نشانات تھے وہ درندگی اور حیوانیت کی انتہا تھے۔دو ہفتہ تک اسپتال میں موت کو آنکھیں دکھانے والی مظلوم دلت لڑکی بالآخراپنی جان ہار گئی۔
اسی سال مارچ کے مہینہ میں ہم نے ’نربھیا-2012‘ کے خطاکارو ں کو پھانسی دے کر یہ سمجھ لیاتھا کہ معاشرہ درندوں سے پاک ہوگیا ہے لیکن یہ غلط فہمی ثابت ہوئی اوروقفہ وقفہ سے ایسے الم ناک واقعات سامنے آتے رہے۔ ہاتھرس کے بعد بلرام پور کا واقعہ بھی یہی بتارہا ہے کہ خواتین محفوظ نہیں ہیں۔اس معاشرے کا ایک بلند مرتبت طبقہ انہیں اپنی ہوس کا سامان سمجھتا ہے۔کچھ کے واقعات رپورٹ ہوجاتے ہیں لیکن زیادہ تر معاملات میں جنسی تشدد کی شکار خواتین چپ رہتی ہیں کیوں کہ انہیں یہ خدشہ ہوتا ہے اگرا نہوں نے انصاف کا تقاضا کیا توانہیں کہیں مزید تشدد نہ سہنا پڑجائے اور انہیں بدکردار نہ کہا جانے لگے۔ڈیٹا بتاتے ہیں کہ اترپردیش میں ہرسال خواتین کے خلاف59,445معاملات رپورٹ ہوتے ہیں جن میں سے 4322 آبروریزی کے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں عورتوں کے خلاف جرائم کے معاملات سے نمٹنے اورا نہیں روکنے کیلئے نہ صرف قانون پرسختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے بلکہ پولیس حکام کے کردا ر میں بھی اصلاح لازمی ہے۔ اس طرح کے زیادہ تر معاملات میں اکثر وبیشتر پولیس کا کردار مشتبہ پایا گیا ہے۔ ہاتھرس کے واقعہ میں بھی یہی پہلو زیادہ سنگین ہے۔ہرچند کہ ہاتھرس گینگ ریپ کے چاروں ملزمین سندیپ، راج کمار، لوکش اور روی کو گرفتار کرلیاگیا ہے لیکن دلت تنظیموں کا الزام ہے کہ پولیس نے اس معاملے میں لیپاپوتی کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے صرف قتل کی کوشش کا معاملہ در ج کیاگیااور صرف ایک شخص کو ہی ملزم بنایاگیا۔ دس دنوں تک اس معاملے میں  پولیس نے کسی کو گرفتار نہیں کیا۔ بات جب پھیلنے لگی اورجگ ہنسائی شروع ہوئی تب جاکر پولیس نے ایکشن لیا اور ملزموں کو گرفتار کیا۔حکومت کی بھی نیند کھلی اور وزیراعلیٰ نے اس معاملے کی تفتیش کیلئے خصوصی ٹیم کی تشکیل اور مہلوکہ کے لواحقین کو 25لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔
مگرسوال یہ ہے کہ کیا یہ اعلان کافی ہے؟اس طرح کے ہر واقعہ کے بعد چند لاکھ روپے اور ملازمت کا اعلان کرکے اس باب کو بند کرنے کی سیاسی بازیگری سے اب اوپر اٹھنے کی ضرورت ہے۔ ایک حساس اور مہذب معاشرہ میں ایسے واقعات کے سدباب کیلئے جس محکم عزم کی ضرورت ہے حکمرانوں میں وہ ناپید ہوگیا ہے۔نفاذقانون کے ذمہ دار ادارے اور افراد بھی بے حسی کی چادرتانے رہتے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے معاملات کو سرسری لینے کی بجائے سرعت سے کارروائی کی جائے گی اور خاطیوں کو فوری سزایاب کرایا جائے۔ مجرموں کوسزا دینے میں تاخیر سے ان کا ارادہ بڑھتا ہے۔ بھلے ہی قانون کو سخت بنا دیاگیا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم کے 4معاملات میں سے صرف ایک معاملہ میں ہی مجرم کو سزاملتی ہے۔ پولیس کے تاخیری حربے سے مجرموں کو ملنے والی مہلت اور سزا سے بے خوفی ایسے واقعات کو جنم دینے کا سبب بنتی ہے۔ سخت ترین تعزیر اورفوری سزا سے ہی ظالموں کے حوصلے پست ہوں گے اور ایسے المناک واقعات پر لگام لگائی جاسکتی ہے۔اس کے ساتھ پولیس کے کردار کی اصلاح بھی لازمی ہے۔ پولیس اگرپوری مستعدی کے ساتھ ایسے معاملات کے خلاف کھڑی ہوتو یقینی طور پر ان میںکمی آسکتی ہے۔
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS