بہار اسمبلی الیکشن ایک نیا تجربہ

0

 بہارمیں اسمبلی الیکشن کا اعلان ابھی تک الیکشن کمیشن نے تو نہیں کیا ہے لیکن سیاسی پارٹیوں نے انتخابی بگل بجادیا ہے ۔ہر پارٹی اپنے طور پر یا اتحاد کی صورت میں زور وشور سے تیاری بھی کررہی ہے اورانتخابی حکمت عملی بھی بنارہی ہے ۔اتحاد ی پارٹیوں کے ساتھ ٹکٹوں کی تقسیم اورپارٹی امیدواروں کے انتخاب کے لئے کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں ۔ووٹروں کو راغب کرنے کے لئے پرکشش انتخابی ایشوز تلاش کئے جارہے ہیں ۔ابھی باقاعدہ انتخابی مہم شروع تو نہیں ہوئی لیکن زبانی حملے جاری ہیں ۔ جیسے جیسے دن گزرے گا ان حملوں میں اورشدت آئے گی اوراس کا بھی امکان ہے کہ حملے کرتے وقت لیڈر اخلاقی حدود سے تجاوز کرجائیں گے جیساکہ ہر الیکشن میں دیکھا جاتا ہے کیونکہ اب ملک کی انتخابی سیاست کا مزاج بن گیا ہے کہ عوام کے مسائل یا ملک کے ایشوز کونہیں چھیڑا جاتا اوران پر انتخابی مہم کے دوران بحث نہیں کی جاتی بلکہ ایک دوسرے پر حملے کرنے اورکیچڑ اچھالنے میں زیادہ توانائی صرف کی جاتی ہے اورغیر ضروری ایشوز کو گرم کرکے انتخابی منظر نامہ کو بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ کم سے کم جوابدہی کی نوبت آئے ۔ڈیٹاپر بات نہیں ہوتی بس بڑے بڑے وعدے کردیئے جاتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے اورنہ ہوں گے ۔
 اسمبلی الیکشن ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ملک میں کورونا کی وبا عروج پر ہے ، یومیہ 90  ہزار سے زیادہ کووڈ ۔ 19 کے کیس سامنے آرہے ہیں ۔بہار ان ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں کورونا کے کیس سب سے زیادہ ہیں اوروہاں تیزی سے پھیل بھی رہا ہے ۔کورونا کے پھیلائو کی روک تھام کے لئے مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری گائیڈ لائن کی روشنی میں یا اس کا پورا خیال رکھتے ہوئے سمبلی الیکشن ہوگا ۔ ملک میں پھیلی وبا کے دوران بہار میں اسمبلی الیکشن کرانا ایک نیا تجربہ ہوگا جس پر ملک ہی نہیں پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں اوریہ الیکشن مستقبل کے لئے نظیر بنے گا ۔ الیکشن سے جہاں ملک کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا وہیںاس کا بھی امکان ہے کہ اس کی وجہ سے اورکورونا نہ پھیل جائے ۔ بہر حال آگے جو بھی ہو فی الحال الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کی تیاریاں کررہا ہے اورسیاسی پارٹیاں الیکشن لڑنے کے لئے کمر کس رہی ہیں ۔ووٹر خاموش ہیں ، شاید ان کو کورونا کی فکر ستارہی ہے یا وہ سیلاب کی تباہی سے نکل کر زندگی کو پھر سے پٹری پر لانے میں مصروف ہیں ۔
ملک کی پسماندہ ریاستوں میں سے ایک بہار میں مسائل کے انبار ہیں ۔ترقیاتی کاموں میں ریاست بہت پیچھے ہے ۔روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو دوسری ریاستوں کا رخ کرنا پڑتا ہے لیکن لاک ڈائون کے بعد سے ریاست کی ایک بڑی آبادی دوسری ریاستوں سے آکر بے روزگار بیٹھی ہے ۔ ایک تو بے روزگاری اوپر سے سیلاب کی مار سے لوگوں کا برا حال ہے لیکن ان کی بدقسمتی کہئے یا سیاسی پارٹیوں کی بے حسی کہ ان کی حالت زار کو ایشو نہیں بنایا جارہا ہے اور نہ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔سیاست ہورہی ہے توسوشانت سنگھ راجپوت کی مبینہ خودکشی کی جس کی انکوائری اب سی بی آئی کررہی ہے جو سیاست کرنے والوں کی مانگ تھی۔ بیانات اورپوسٹرز کے ذریعہ اسے اتنا گرم کیا جارہا ہے کہ دیگر عوامی ایشوز اورمسائل دب جائیں ۔دوسرے نمبر پر ریاست میں دلت کارڈ کھیلا جارہا ہے اوردلت لیڈروں کو ہی نہیں بلکہ دلت ووٹروں کو بھی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ریاست کے بنیادی مسائل جیسے بے روزگاری ،مہنگائی ، پسماندگی ، تعلیم ،سڑک ، بجلی اورعلاج وغیرہ کو اس طرح نظر انداز کیا جارہا ہے جیسے وہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔صف بندی اوردل بدلی خوب ہورہی ہے اوراندرون خانہ ذات پات کی سیاست بھی ۔دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں عوام کی کسوٹی پرکتنی کھری اترتی ہیں اورعوام اپنے مسائل کے لئے کس پر بھروسہ کرکے اسے اقتدار سونپتے ہیں۔ آزمائش تو سب کی ہے ۔ الیکشن کمیشن کا امتحان اس میں ہوگا کہ وہ انتخابی گائیڈلائن اور کورونا کی گائیڈلائن میں تال میل کس طرح کرتا ہے ؟خلاف ورزی سے دونوں کو کس طرح بچاتا ہے ؟اورکورونا کے دوران الیکشن کرانے کا تجربہ کتنا کارگر اورکتنا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS