آر ٹی آئی ایکٹ کے تقربیا ڈیڑھ دہائی کے دوران صرف 3.32 کروڑ (2.6 فیصد)لوگوں نے اس حق کا استعمال

0

نئی دہلی: ملک میں حق اطلاعات (آر ٹی آئی)ایکٹ کے نفاذ پر 15 کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن اب تک صرف تقریبا ڈھائی فیصد لوگوں نے ہی اس کا استعمال کیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف اس مضبوط ہتھیار کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی مہم انتہائی سست روی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
انسداد بد عنوانی کے امور سے وابستہ  ایک تحقیقی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل انڈیا (ٹی آئی آئی)کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں آرٹی آئی ایکٹ نافذ ہونے کے بعد تقریبا ڈیڑھ دہائی کے دوران صرف 3.32 کروڑ (2.6 فیصد)لوگوں نے اس حق کا استعمال کیا ہے۔ واضح ر ہے کہ ملک میں بدعنوانی پر قابو پانے کے لئے آر ٹی آئی ایکٹ 12 اکتوبر 2005 کو نافذ کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد حق اطلاعات کو جامع اور مؤثر بناکر سرکاری مشینری کو شفاف بنانا ہے۔
یوم حق اطلاعا (آر ٹی آئی ڈے)کی مناسبت سے اس قانون کے اب تک سفرنامے پر تحقیقی تنظیم کی جانب سے اتوار کے روز جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں اس کا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں صرف 0.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت کے مختلف محکموں میںسب سے زیادہ میں آرٹی آئی داخل کیے جارہے ہیں، جب کہ ریاستوں میں آر ٹی آئی کے استعمال کے معاملے میں مہاراشٹر، کرناٹک اور تمل ناڈو پہلے تین مقامات پر ہیں۔
رپورٹ میں آر ٹی آئي کی سست روی کے لیے اطلاعات کی فراہمی کے نظام کو مستحکم بنانے میں ناکامی کو بنیادی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ آر ٹی آئی ایکٹ کو مؤثر بنانے کے لئے  مرکزی اور ریاستی سطح پر قائم اطلاعاتی کمیشنوں میں خالی پڑی آسامیاں اس کا ایک بہت بڑا ثبوت ہیں۔ 
سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود مختلف اطلاعاتی کمیشنوں میں اطلاعاتی کمشنروں کے 160 عہدوں میں سے 38 خالی اسامیوں پر بھرتی نہيں کی گئی ہے۔ صرف یہی نہیں،خالی اسامیوں کی تعداد  سال 2019 کے مقابلہ میں اس سال زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ بھی تشویش کی بات ہے کہ مرکزی اطلاعاتی کمیشن سمیت تین ریاستوں اترپردیش، جھارکھنڈ اور گوا میں چیف انفارمیشن کمشنر کے عہدے بھی خالی پڑے ہیں۔ گزشتہ سال اطلاعاتی کمشنروں  کی 155 میں سے 24 اسامیاں خالی تھیں۔
آر ٹی آئی ایکٹ میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ آر ٹی آئی کے بارے میں سالانہ رپورٹ تیار کرکے اسے شائع کریں۔ اس ضمن میں سرکاری مشینری کے ناقص طرز عمل کو اجاگر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیشتر ریاستوں نے اس سلسلے میں گزشتہ کئی سالوں سے سالانہ رپورٹ شائع نہیں کی ہے۔ اس معاملے میں صرف چھتیس گڑھ،  راجستھان اور گجرات کا رپورٹ کارڈ بہتر ہے۔ اترپردیش حکومت نے 15 سالوں میں ابھی تک ایک بھی سالانہ رپورٹ شائع نہیں کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بہار سمیت تین ریاستوں میں اطلاعاتی کمیشن کی ویب سائٹ ٹھپ پڑی ہوئی ہے۔ صرف یہی نہیں، کورونا  وائرس کے بحران کے آغازسے، بیشتر ریاستوں کے اطلاعاتی کمیشنوں میں آن لائن سماعتیں ٹھپ ہوگئی ہیں جبکہ کورونا بحران کے دوران آن لائن سماعتوں کو مؤثر بنانے کی ضرورت تھی۔
رپورٹ میں دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق ابھی تک مرکزی حکومت کے مختلف محکموں  میں آر ٹی آئي کی  92.63 لاکھ درخواستیں دی جا چکی ہیں۔ ریاستوں میں، مہاراشٹر (69.36 لاکھ)، کرناٹک (30.50 لاکھ)اور تمل ناڈو (26.91 لاکھ) آر ٹی آئی درخواستیں موصول کرنے کے ساتھ بالترتیب سب سے آگے ہیں۔ منی پور،سکم، میزورم، میگھالیہ اور اروناچل پردیش جیسی شمال مشرقی ریاستیں اس معاملے میں سب سے پیچھے ہیں۔ جبکہ  اتر پردیش اور بہار  نے آر ٹی آئی کے اعداد و شمار کو شائع نہیں کیا ہے۔
ٹی آئی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر رما ناتھ جھا نے کہا کہ گزشتہ 15 سالوں کے آرٹی آئی کے تجربے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی حکومتی مشینری میں شفافیت کے تئيں حکومتوں اور سرکاری عہدیداروں کا رویہ تبدیل نہیں ہورہا ہے۔ جھا نے کہا کہ معلومات کو عام کرنے کے لئے افسران کے ٹال مٹول کرنے کے رحجان میں بہتری نہ ہونے کی وجہ سے آر ٹی آئی کو زیادہ مؤثر اور جامع بنانے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS