’’…کرو کج جبیں پہ سرِ کفن…‘‘

0

عزیز قریشی

پچھلے دنوں ہندوستان کے کچھ بہت ہی اہم وظیفہ یافتہ اونچے درجے کے سرکاری ملازمین کی آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک جناب موہن بھاگوت سے مسلم مسائل پر تبادلہ ٔ خیالات کی خبریں شائع ہو ئیں تھیں ۔ پھر اس کے بعد جناب موہن بھاگوت کے ایک مسجد اور مدرسے میں جانے ، وہاں قرآن پاک سننے اور مسلم مسائل پر گفتگو کرنے کی خبریں بھی آئیں تھیں۔ …جن مسلم افسران کے نام آئے ہیں ان کی قابلیت، کردار و عمل پر ایک نقطہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ لیفٹیننٹ جنرل ضمیر شاہ صاحب ہمارے لیے فخرِملت ہیں اور ہندوستانی فوج کے تمام شعبوں میں ان کی بڑی قدر و منزلت ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے بھی انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اسی طرح سابق الیکشن کمشنر جناب قریشی کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ہریانہ میں جوائنٹ سکریٹری تھے اور میں دہلی میں لوک سبھا کا ممبر تھا اسی طرح نجیب جنگ، مدھیہ پردیش میں ایک اہم ضلع کے کلکٹر تھے جب میں وہاں ایک چھوٹی سی سرکاری حیثیت میں کام کر رہا تھا اور نجیب اپنی کارگردگی، شرافت اور ایمانداری کے لئے مشہور تھے ۔
اسی لئے ان اصحاب کی نیت پر اور جناب موہن بھاگوت سے بات چیت پر کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا اور یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ قدم ملت کے فائدے اور تحفظ کے لئے ہی اٹھایا گیا ہے ۔۔۔لیکن جہاں تک امام صاحب کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی اس لئے کہ بڑا طبقہ امام الیاسی صاحب ان کی جماعت اور کاموں پر پورا یقین رکھتا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا طبقہ ان کا سخت مخالف ہے اور ان کو بی جے پی اور آر ایس ایس کی جیب میں رکھا ہوا ایک کھلونا مانتا ہے اور انہیںاور ان کے خاندان کو آر ایس ایس اور بی جے پی کا پرانا نمک خوار اور وفادار مانتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ یہ بی جے پی کے اشاروں اور حکم پر ہی سارے کام کرتے ہیں ۔
میرے امام الیاسی خاندان سے بہت اچھے تعلقات ہیں جو بالکل غیر سیاسی ہیں اور میں ان کی عزت کرتا ہوں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا اصلی دشمن اور ان کا وجود مٹانے، ان کے مذہبی عقائد کو مجروح کرنے،ان کی رسوم ، تہذیب ، تمدن ، کلچر ، عبادت گاہیں ، درگاہیں ، وقفیہ جائیداد، مدرسے ، تعلیم ، تاریخ اور عظیم الشان ماضی کی نشانیوں کو جڑ بنیاد سے مسمار کرنے اور اکھاڑ پھینکنے کے لئے اگر کوئی کمر بستہ ہے تو وہ صرف آر ایس ایس ہے جوتقریباً پچھلے سو سالوں سے اسلام اور مسلمانوں کے وجود کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لئے اپنی منصوبہ بند جد و جہد میں مصروف ہے ۔
اس لئے ضروری ہے کہ جناب موہن بھاگوت سے مسلم مسائل پر بات کرنے سے پہلے خاک اور خون میں لتھڑی ہوئی ہندوستان کے مسلمانوں کی وہ داستان یاد دلائی جائے جو تقسیم ہند کی کشمکش کے دوران تاریخ کے صفحات پر مسلمانوں کے خون سے لکھی گئی اور ظالموں نے اپنے خنجروں کو معصوم انسانوں کے خون میں ڈبو کر صفحہ ٔ قرطاس پر پیوست کیا ہے۔ جناب موہن بھاگوت اور آر ایس ایس سے پچھلے تقریباً 75 سالوں کی لٹی ہوئی عصمتوں، جلتے ہوئے گھروں، بیوہ خواتین، یتیم بچوں، لٹے ہوئے سہاگ ، مانگوں سے پچھے ہوئے سندور ، جلتے ہوئے گھر، ہاتھوں کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اور راکھ ہوتے ہوئے ان کاروباروں کا حساب لیا جائے جو آج تک نہیں دیا جا سکا ہے ۔ ان سے بات کرتے وقت ان ہزاروں وقفیہ جائیدادوں، مسجدوں، عید گاہوں، قبرستانوں، درگاہوں اور دوسری قیمتی وقفیہ جائیدادکا حساب مانگا جائے جن پر آج بھی غیر مسلموں کا قبضہ ٔ ناجائز ہے اور جو اس سے آزاد ہونے کے لئے فریا د کر رہی ہیں ۔ جناب موہن بھاگوت سے اردو زبان کے اس قتلِ عام کا بھی حساب لیا جائے جسے آزادی کے بعد ایک منصوبہ بند طریقے سے صلیب پر چڑھا دیا گیا تھا کیا جناب موہن بھاگوت جی کو یہ معلوم ہے کہ 15؍اگست 1947 تک لاہور ہندو شدھی تحریک اور سنگٹھن کا سب سے بڑا مرکز تھا اور شدھی تحریک کے سارے اخبار ، رسالے ، پوسٹر، پرچے اور خط و کتابت یا تمام دیگر اشاعت صرف اردو زبان میں ہی ہوا کرتی تھی اور اس کے ذریعے شدھی تحریک لوگوں کو مذہب تبدیل کر کے ہندو بنانے کا کام کرتی تھی۔ کیونکہ اس وقت کی عوامی زبان اردو صرف اردو تھی، اردو کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں تھی؟ حالانکہ اردو کے قتل کے لئے مؤرخ کانگریس پارٹی کو بھی معاف نہیں کرے گا کہ اس کے پہلے قد آور اور قوم پرست چیف منسٹر جی بی پنت نے یو پی کو ایک زبان کا صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا جس پر پنڈت جواہر لعل نہرو نے سخت غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مخالفت بھی کی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آر ایس ایس نے اردو کو مٹانے کی ایک منظم سازش کی اور اپنے شِشو مندر اور دوسرے اداروں کے ذریعے اردو کا قتل عام کیا ۔
اگر ہمارے دانشور، مذہبی علماء اور دیگر پینشن یافتہ اعلیٰ سرکاری ملازمین ان مسئلوں پر جناب موہن بھاگوت سے بات کرنے کے بعد کوئی مثبت راستہ نکال سکتے ہیں تو یقینا اس کا خیر مقد م کرنا چاہئے تاکہ ملت کو اس سے فائدہ اور تحفظ مل سکے ۔ اس سے پہلے بھی آر ایس ایس کے سربراہ جناب موہن بھاگوت نے مسلمانوں کے بارے میں کچھ بہت اچھے اور مثبت بیان دیئے تھے جس سے لگتا تھا کہ بظاہر وہ مودی جی ، امت شاہ جی اور یوگی جی وغیرہ کی نفرت کی سیاست اور انسانیت کو تقسیم کرنے والی پالیسی سے الگ ہٹ کر ایک گنگا جمنی سماج کو قائم کرنا چاہتے ہیں اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں ۔ ۔۔۔۔میں نے انہیں دو خط لکھے ایک ان کے ناگپور اور دوسرا ان کے دہلی کے پتے پر اس کے بعد میں نے انہیں سوشل میڈیا پر ایک کھلا خط بھی لکھا ۔۔۔ جس میں میں نے ان کے ان خیالات کو پوری طرح سراہتے ہوئے یہ لکھا کہ اگر آپ واقعی سنجیدہ ہیں اور سچائی کے ساتھ ان باتوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو آگے قدم بڑھائیں ہندوستان کے مسلمان ایک غیر فرقہ پرست جمہوری ، پر امن ، وطن پرست جہاں ہر طرف بھائی چارہ ہو انسانی محبت ہو، وطن سے مکمل وفاداری ہو ۔۔۔۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہندوستانی مسلمان اپنی آخری سانس تک جد و جہد کرے گا اور اپنے خون کا آخری قطرہ بہا کر بھی ہندوستان کے نقشے میں رنگ بھر دے گا۔ مگر ان خطوط کو جواب دینا تو بہت دور کی بات ہے جناب موہن بھاگوت کے دفتر کی جانب سے ان خطوط کی رسید تک نہیں ملی ۔۔۔۔۔
اسی کے ساتھ ساتھ جناب موہن بھاگوت سے یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ مدارس کا اور وقفیہ جائیداد کا سروے کرانے کے بعد کیا ان کے ماتحت مرکزی اور صوبائی سرکاریں اس قبضہ ٔ نا جائز کو ختم کر کے وہ تمام جائیدادیں متعلقہ وقف بورڈوں ، اور متولیان کو واپس کر دیں گی ؟۔۔۔۔
یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی خوش نصیبی ہے کہ حضرت مولانا رابع ندوی ؔ جو کہ مفکر ِ اسلام ہیں ، طہارت ِ ہند ہیں، عظمتِ ہند ہیں اور پوری ملت کے لئے باعثِ افتخار ہیں۔ وہ آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے صدرِ محترم ہیں۔ اس لئے پوری ملت کو اپنے مذہبی اور شرعی فرائض ادا کرنے کے ساتھ حضرت مولانا رابع ندوی ؔ صاحب کا فرمان ماننا چاہئے ۔
بالکل اسی طرح جمعیۃ علماء ہند کے محترم المقام صدر محافظِ ملت و مجاہدِ ملت مولانا ارشد مدنی کی تمام ہدایات اور احکامات کو سیاسی طور پر ہمارے تمام معاملات میں ان کا حکم مان کر اس پر عمل کرنا چاہئے اور جمعیۃ علماء ہند کو پوری طر ح طاقتور بنانا چاہئے ۔ ملت اسلامیہ کے مسائل کا حل کچھ دانشوروں، اعلیٰ افسروں، یا چند مذہبی علماء سے جناب موہن بھاگوت کی بات چیت کے ذریعے سے نہیں نکل سکتا ۔۔۔۔اس کے لئے ہندوستان کی مسلمانوں کی پوری آبادی کو ایک یقینِ محکم ، عملِ پیہم اور محبت فاتحِ عالم کے فارمولے کو اپنانا پڑے گااور چھوٹے چھوٹے بے معنی، مسلک، رسومات اور عقائد کے جھگڑوں سے اپنے آپ کو آزاد کرنا ہوگا جس کی یہ ملت شکار ہے ۔ تعلیم پر اور جائز آمدنی پر گزارہ کرنے کے ایمان پر یقین رکھتے ہوئے ہمیں ایک صحت مند وطن سے وفادار ، قوم پرست ترقی پسنداور فعال قوم بننا ہوگا اور جناب موہن بھاگوت کو یہ بتانا ہوگا کہ وطن پرستی اور قوم پرستی میں ہم آپ سے ایک قدم آگے ہیں کیونکہ ہندوستان سے وفاداری اور قوم پرستی آپ کے لئے صرف ایک سول فریضہ ہے جب کہ ہندوستان کے مسلمان کے لئے وطن پرستی اور قوم پرستی سِوِل فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مذہبی فریضہ بھی ہے اس کے بغیر ان کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ۔
میری عمر 82سال کی ہو چکی ہے اور پوری زندگی بے کار گئی اور میں کچھ بھی نہیں کر پایا ۔۔۔۔۔عمرِ رائیگاں کے چند سال باقی ہو سکتے ہیں تو میں پورے صدق دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ میری عمر ِ رائیگا ں کے بچے ہوئے جو کچھ بھی سال ہیں وہ حضرت مولانا رابع ندوی صاحب اور مولانا ارشد مدنی صاحب جیسے بزرگانِ دین کو عطا کر دے تاکہ کچھ تھوڑے ہی وقت کے لئے کیوں نہ ہووہ انسانیت اور ملت کی فلاح و بہبود کے کام آ جائیں ۔۔۔آمین
(سابق گورنر، اتراکھنڈ، یوپی اور میزورم)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS