مکروہ عدم مساوات

0

ان ہی سطور میں بارہا معاشی عدم مساوات کا ذکر کرتے ہوئے ارب پتی افراد پر ٹیکس لگانے اور اس رقم کو غریبوں کی فلاح و بہبود میں صرف کرنے کی تجویز پیش کی جاچکی ہے۔ظاہر ہے یہ تجویز نقارخانہ میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہونی تھی اور ہوئی۔ گمان یایوں کہیں کہ بدگمانی یہ بھی ہے کہ مستقبل بعید میں بھی ایسی کسی تجویز پر عمل درآمد ممکن نہیں ہے۔ اب یہی تجویز انسداد غربت کیلئے کام کرنے والی ’آکسفیم‘ نامی تنظیم نے پیش کی ہے اور دنیا کی تمام حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ارب پتیوں پر یکمشت 99 فیصد ٹیکس لگائیں اور اس ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال غریبوں کیلئے وسیع پیمانے پر کووڈ19- مخالف ٹیکے بنانے کیلئے کریں۔تنظیم کی یہ اپیل دنیا میں عدم مساوات کی ہوش ربا صورتحال اور کورونا وائرس کے بعد اس میں دیوہیکل اضافہ کے پس منظر میں سامنے آئی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے دوران خاطر خواہ مالی وسائل کے سبب امیروں کو فائدہ ہوا ہے۔ کورونا کے ٹیکے بھی ان ہی ممالک کو ملے ہیں جن کے پاس دولت ہے جب کہ غریب افراد اور غریب ممالک ٹیکوں تک رسائی سے محروم رہے ہیں۔ آکسفیم کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ کورونا کے خلاف بچائو کیلئے دی جانے والی ویکسین کی ان امیر ممالک نے جمع خوری کی ہے جو ادویات سازی پر اپنا اجارہ محفوظ رکھناچاہتے ہیں۔ ’آکسفیم انٹرنیشنل‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر گیبریئلا بوشیر کا دعویٰ ہے کہ عالمی وباارب پتی افراد کیلئے غیر معمولی طور پر سود مند ثابت ہوئی ہے۔ کوروناکی پہلی اور دوسری لہر کے دوران مختلف ممالک کی حکومتوں کی جانب سے راحت اور بچائو نیز اقتصادی نظام بہتر بنانے کیلئے دی جانے والی مجموعہ مراعات کاتمام تر فائدہ دنیا کے امیر ترین اور ارب پتی افراد نے ہی اٹھایاہے۔آکسفیم کی تجویز ہے کہ دنیاکے 10 سب سے امیر لوگوں پر یکمشت 99 فیصد ٹیکس لگانے سے 800 ارب ڈالر مل سکتے ہیں اور اس رقم سے پوری دنیا کیلئے ویکسین خریدی جاسکتی ہے اور سبھی کیلئے صحت خدمات یقینی بنائی جاسکتی ہیں۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا آکسفیم کی یہ اپیل سنی بھی جائے گی؟ایسا لگتا نہیں ہے کیوں کہ نجی ملکیت کی بنیاد وں پر کھڑے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے اس نظام نے دنیا کو مختلف حدود میں جکڑ رکھا ہے۔یہاں ہوس کی حد کوبھی نیچادکھانے والے منافع اور نجی ملکیت کو سرکاری تحفظ حاصل ہے۔ یہ نظام ’ ضرورت ‘ کے بجائے منافع پر مبنی ہے اور ٹیکنالوجی اور پیداوار کے تمام ثمرات ضرورت مندوں کے بجائے منافع خور تاجروں اور امیر طبقہ کی جھولی میں گرتے ہیں۔صدی کے اس سب سے بڑے بحران کے دور میں بھی معاشرے کے پسماندہ اور محنت کش غریب عوام کی آمدنی میں جہاں مسلسل گراوٹ ہورہی ہے، وہیں ایک طبقہ دیو ہیکل دولت کا انبار جمع کررہاہے۔
’سوشلزم‘ کے خوش نما نعرہ سے اپنا آغاز کرنے والے آزاد ہندوستان میں بھی صورتحال انتہائی مکروہ ہوچکی ہے۔کورونا کے اس بحران کے باوجود ہندوستان میں ارب پتی افراد کی تعداد 102سے بڑھ کر142ہوگئی ہے اوران کی دولت بھی 23.14لاکھ کروڑ سے بڑھ کر 53.16 لاکھ کروڑ روپے ہوچکی ہے۔جب کہ 4.6کروڑ غریب اور محنت کش عوام خط افلاس سے بھی نیچے لڑھک گئے ہیں۔ اس صورتحال کو آکسفیم نے بجا طورپر معاشی تشدد اور دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس تشدد میں براہ راست حکومتیں بھی ملوث ہیں جن کی سیاسی اور معاشی پالیسیاںچند ایک مخصوص مراعات یافتہ طبقہ کی دولت کو برقرار رکھنے اور اس میں مسلسل اضافہ کے گرد گھومتی ہیں۔ اس معاشی تشدد کی وجہ سے دنیا میں ہر چار سیکنڈ میں ایک محنت کش، غریب موت کی اندھی وادی میں جاگرتا ہے۔
سرمایہ داری کو تحفظ فراہم کرنے والی حکومتیںحتیٰ کہ جمہوری حکومتیں بھی اس صورتحال کو بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہیں۔ اس کے برخلاف محنت کش اور غریب عوام کو مختلف طرح کے پرفریب نعروں، پرشکوہ الفاظ اور خوش کلامی کے جال میں جکڑے رکھنا ان کی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔ ایک طرف وہ عوام کو کفایت شعاری کا درس دیتی ہیںتو دوسری طرف سرمایہ داروں کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔اس صورتحال کو اگر وسیع کینوس میں دیکھاجائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج دنیا میں سرمایہ کی ہی حکومت ہے اور بظاہر امور مملکت چلانے والی حکومتیں ان کی چاکر ہیں۔ایک چاکر سے یہ توقع بہرحال نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی بھی ایسا کام کرے جس سے سرمایہ داروں پرزد پڑے۔ اِلایہ کہ دنیا کا یہ مکروہ نظامِ سرمایہ داری بدل جائے اور دنیا میں ایسا منظر نامہ تخلیق ہو جس میں محمود کی دولت پر ایاز کو بھی اتنا ہی حق ہو جتنا کہ محمود کا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS