وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

0

آئین کے نفاذکے 72ویں سال میں بھی مسلمانان ہندکو ایک نئی صبح کا انتظار،ذمہ دار کون؟
خواجہ عبدالمنتقم
نئے سال کا نیا سورج،نئی صبح، سب کے لیے نئے خواب اور نئی امیدیں لے کر آتا ہے۔کچھ خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے ہیں کچھ نہیں۔ اسی طرح کچھ امیدیں پوری ہوتی ہیں توکچھ نہیں۔ آزادی کے74 سال سے زیادہ گزر جانے اور آئین کے نفاذکے 72ویں سال میں بھی مسلمانان ہندکو اس سحر کا تا ہنوز انتظار ہے جس میں انھیں ہر شعبۂ حیات میں اپنی پسماندگی کا طعنہ نہ سننا پڑے۔تقسیم ہند کے فوراً بعدمسلمانان ہند کو جن مشکلات اور نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس کے سبب وہ ایک طرح سے غار تاریکی میں چلے گئے تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جیسے لوگوں نے انھیں اس غار تاریکی سے نکال کر پھر سے باوقار شہریوں کی صف میںلاکر کھڑا کر نے کی کوشش ضرور کی لیکن جس طرح لمحوں کی خطا کی سزا صدیوں تک بھگتنی پڑتی ہے، اسی طرح غار تاریکی سے نکل کر باہر آنے میں وقت تو لگتا ہی ہے مگر اتنا نہیں جتنا اس طبقۂ محروم کو لگ گیا۔ یہ امر نہ صرف باعث افسوس ہے بلکہ باعث تشویش بھی ہے کہ آئینی تحفظ کے باوجودمسلمان تعلیمی ومعاشی اعتبار سے دیگر غیر مراعاتی طبقات یعنی دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں۔ہر شعبۂ حیات میں ان کی پسماندگی کوئی شب تاریک نہیں یہ تو روز روشن کی طرح عیاںہے اور یہ سب کچھ سرکاری کیمروں میں قید ہے۔
مسلمانان ہند کی پسماندگی کو کسی حکومت یا سیاسی جماعت سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ ہر دور حکومت میں ان کی حالت تقریباً ایسی ہی رہی ہے۔اب تو خود سرکار اور اس کے قائم کردہ ادارے اس بات کو مانتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان آج بھی ایک کم مراعاتی و محروم گرو پ (disadvantaged & deprived group) ہیں۔ ولیم ہنٹر سے لے کرآج تک کتنے ہی سروے ہو چکے ہیں، کمیشن بن چکے ہیں، کمیٹیاں قائم ہو چکی ہیں، مردم شماریاں ہو چکی ہیں، اخبارات ورسائل کے صفحات کے صفحات ان کی داستان پسماندگی سے بھرے پڑے ہیں۔ گوپال سنگھ پینل (1980)، وردھاراجن کمیٹی 1996))،سچر کمیٹی (2005)اوررنگا ناتھ مشرا کمیشن)،1998-99، NFHS-IIاور2011 و آخری مردم شماری کے جو اعداد و شمارہیں،ان کی زندگی کے ہر شعبے میں پسماندگی کا معتبر دستاویزی ثبوت ہیں۔ان دستاویزات میں مسلمانوں کے جن مسائل اورمحرومیوں کا ذکر ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
ـــــــــ تعلیم کا فقدان( مسلمانوں میں ہائر سیکنڈری سے اوپر تعلیم حاصل کرنے والوں کا فیصد 8.6اور شرح خواندگی 59.1ہے جس کا تعین اگر باعزت روزگار حاصل کرنے کے لیے تعلیمی لیاقت واہلیت کی بنیاد پرکیاجائے تومسلمانوں کی شرح خواندگی مشکل سے 5یا10فیصد کے درمیان آئے گی جبکہ جینیوںمیں شرح خواندگی 94.1فیصد ہے، مسلمانوں کی معاشی سرگرمیوں میں حصہ داری صرف 31.3فیصد ہے۔ ان کی انتظامیہ، مقننہ وعدلیہ میں آبادی کے تناسب سے بہت کم نمائند گی ہے، وہ افواج، پولیس وسراغ رساں ایجنسیوں میں بہت ہی کم تعداد میں ہیں(سرکاری ملازمتوں میں1.5فیصد، پولیس میں 3فیصد،این ایس جی اور ایس پی جی میں تقریباً صفر کے برابر)،البتہ گزشتہ دو دہائیوں میں مسلم نوجوانوں کی مسابقتی امتحانات میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور سرکاری اقدامات کے نتیجے میں ان کے تناسب میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ مسلم تعلیمی اداروں کی کم تعدادجبکہ حکومت ہند نے 2004 میں اقلیتی تعلیمی اداروں کے لیے قومی کمیشن ایکٹ لاکر اب یہ کام بہت آسان کردیا ہے کہ اقلیتیں اپنے ادارے قائم کرسکیں۔ اس ایکٹ کے مطابق کوئی بھی اقلیتی تعلیمی ادارہ اپنی مرضی کی کسی بھی یونیورسٹی سے متعلقہ قانون، دستور، آرڈیننس، قواعد وضوابط کے تابع الحاق کی درخواست دے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اسے حکام سے NOCلینا ہوتا ہے۔ درخواست دینے کے 60دن کے اندر اندر حکام کو سر ٹیفکیٹ دینا ہوگا یا اس سلسلہ میں جو بھی فیصلہ کیا گیا ہو، اس کی اطلاع درخواست دہندہ کو دینی ہوگی۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو درخواست دہندہ کو یہ آزادی ہوگی کہ وہ اپنا ادارہ قائم کرسکے۔ وہ ادارہ ایک باضابطہ قائم کیا گیا اقلیتی ادارہ مانا جائے گا ۔ فلاحی اداروں، خصوصاً NGOsکی بہت کم تعداد، تعلیم وروزگار سے متعلق مشاورتی اداروں کی قلیل تعداد، کاغذی کارروائی اور صحیح رہنمائی نہ ہونے کے سبب سرکاری اسکیموں سے مستفیض نہ ہوپا نا۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویز کا ر آمد ثابت ہوسکتی ہیں۔
تعلیمی اداروں کا قیام:مسلمانوں کو جدید تکنیکی وپیشہ ورانہ تعلیم پر زیادہ دھیان دینا چاہیے تا کہ وہ سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنا راستہ خود تلاش کرسکیں۔ اردو، عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی اور ہند ی زبانیں بھی شروع ہی سے سیکھنا شروع کردیں۔خوشی کی بات ہے کہ اب مدرسوں کی جدید کاری کا عمل شروع ہوچکاہے اور مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ تکنیکی تعلیم بھی دی جانے لگی ہے۔ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ گزشتہ چند سالوں میں فارغ التحصیل اور یونانی تعلیم یافتہ امیدوار سول سروسز کے مقابلہ جاتی امتحان میں فوز و فلاح کو پہنچے ہیں۔ اس سلسلہ میں شمالی ہندوستان کے لوگ جنوبی ہندوستان کے لوگوں سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔
اقلیتوں کے لیے مختلف سرکاری سہولیات وادارے: حکومت ہند نے 1994 میں قومی اقلیتی ترقیاتی ومالی کارپوریشن قائم کی تھی۔ اقلیتیں و NGOsاس کارپوریشن سے کسی بھی ترقیاتی یا پیشہ ورانہ کام کے لیے قرض لے سکتے ہیں۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن بھی پیشہ ورانہ اور تکنیکی تربیت کے مراکز اور اداروں کو مالی امداداورطلبا کو وظائف دیتی ہے۔اس کے علاوہ مرکزی حکومت و ریاستی حکومتوں کی جو عام فلاحی اسکیمیں ہیں، جن کی تفاصیل مرکزی حکومت و ریاستی حکومتوں کی ویب سائٹ پر موجود ہیں جیسے آئی سی ڈی ایس (آنگن واڑیاں) سروشکشا ابھیان، جن آروگیہ یوجنا، اجول یوجنا، آیوشمان،اقلیتی خواتین میں قائدانہ صلاحیت پیدا کرنے سے متعلق اسکیم و دیگر فلاحی اسکیموں سے فائدہ اٹھائیں۔
NGOs کا رول: مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ تعلیمی، ترقیاتی وطبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ NGOsقائم کریں کیونکہ سرکار مختلف اسکیموں کے تحت NGOsکو ہی مالی امداد دیتی ہے۔ یہ تنظیمیں عام لوگوں کو سرکاری اسکیموں اور قوانین کی جانکاری دے سکتی ہیںاور انھیں سرکاری سہولیات سے فائدہ اٹھانے، بینکوں وغیرہ سے قرض لینے، ملازمتوں کے لیے درخواست دینے جیسے معاملات میں ضروری کاغذات پر کرنے میں مدد کرسکتی ہیں چونکہ مسلمان اکثر فارم بھرنے سے کتراتے ہیں۔
مال درآمد وبرآمدکرنے سے متعلق قوانین، قواعد وضوابط کی جانکاری: سینٹرل وقف کونسل یا فلاحی اداروں کو چاہیے کہ وہ ایسے مراکز قائم کریں کہ جہاں مسلمانوں کو امپورٹ وایکسپورٹ سے متعلق قوانین، قواعد وضوابط کی ضروری جانکاری فراہم کی جائے چونکہ اس میدان میں مسلمانوں کا جتنا استحصال کیا جارہا ہے وہ شاید ہی کسی دیگر میدان میں کیا جارہا ہو۔ مسلمان کا ریگر مال بناتے ہیں اور کارخانے دار بہت کم نفع پر اس مال کو ایکسپورٹ کمپنیوں کو فروخت کردیتے ہیں۔
موجودہ صورت حال اگر خوش کن نہیں تو زیادہ مایوس کن بھی نہیں۔خوش کن اس لیے کہ اب مسلمان بھی کسی حد تک شعوری طور پر بیدار ہوچکے ہیں، ان میں تعلیمی رجحان بھی بڑھ رہاہے۔ مسابقتی امتحانات میں ان کی کامیابی کا تناسب بتدریج بڑھ رہاہے خواہ کچھوے کی چال سے ہی سہی، ان کی فی کس آمدنی میں کسی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ البتہ نظام حکومت میں کما حقہ حصہ داری سے تا ہنوز محروم ہیں۔ مسلمانوں کو اب کھلونا نہیں، معاشی ہتھیار چاہیے۔ایک عظیم پریم جی سے کام نہیں چلے گا، انھیں ایسے ’انیک‘پریم جی چاہئیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی،مصنف و سابق بیوروکریٹ ہیں۔ وہ این سی پی یو ایل کے لاء پینل کے رکن بھی ہیں اورامیٹی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر رہ چکے ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS