حجاب اور جج حضرات کااختلاف رائے

0

کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کامعاملہ عدالت عظمیٰ کے دو جج صاحبان جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کے درمیان اختلاف رائے کی وجہ سے آج بھی فیصل نہ ہوسکا۔ عدالت نے حجاب تنازع پر طویل سماعت کے بعد 22 ستمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سماعت کے دوران درخواست گزاروں اور حکومت کرناٹک نے اپنے اپنے دلائل دیے تھے اور آج جب فیصلہ آیا تودونوں ججوں کی الگ الگ رائے سامنے آئی۔جسٹس ہیمنت گپتا نے جہاں حجاب پر پابندی کی حمایت کرتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا وہیں جسٹس سدھانشو دھولیا نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے سیکولرازم، آئینی آزادیوں اور لڑکیوں کی تعلیم کو فعال بنانے پر زور دیا۔
عدالت کی یہ منقسم رائے ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب ایران میں حجاب کے خلاف زبردست مظاہرے ہورہے ہیں اور بڑے پیمانے پر تشدد ہوا ہے۔ دونوں ججوں کی مختلف رائے سامنے آنے کے بعد اب یہ معاملہ چیف جسٹس کی بنچ کو بھیج دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس یو یو للت اس معاملے میں ایک نئی بنچ تشکیل دیں گے جو تین یااس سے زیادہ ججوں پر مشتمل ہو سکتی ہے۔
جسٹس دھولیا نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اسکولوںمیں نظم و ضبط کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن آزادی اور وقار کی قیمت پر نہیں۔ لڑکیوںکی تعلیم کے سلسلے میں ہندوستان کے معاشرتی منظرعامہ کا جسٹس ڈھولیا نے بالتفصیل ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج ہندوستان میں ایک لڑکی کیلئے تعلیم حاصل کرنا اس کے بھائی کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے، ایسے میں نظم و ضبط کی پابندی کے نام پر اسے تعلیم سے محروم نہیںکیاجاسکتا ہے۔انہوں نے حجاب کو انتخاب کا معاملہ قرار دیا اورکہا کہ اس تنازع کو سلجھانے کیلئے کرناٹک ہائی کورٹ کی طرف سے لازمی مذہبی روایت کو ایک مسئلہ کے بطور زیرغور لانا غلط تھا۔ یہ آئین کے آرٹیکل 15 کے تحت انتخاب کا معاملہ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ہمارے آئین کے بہت سے پہلوئوں میں سے ایک ہے اعتماد،یہ وہ اعتماد ہے جو اقلیتوں نے اکثریت پر کیا ہے اور آئین اس اعتماد کی دستاویز ہے۔جسٹس دھولیا نے کرناٹک حکومت کے 5 فروری کو دیے گئے حکم کو ایک طرف رکھتے ہوئے حجاب پر سے پابندی ہٹانے کا حکم دیا ہے۔جب کہ جسٹس ہیمنت گپتا نے حجاب پر پابندی کے اپنے فیصلے کے حق میں کئی ایک دلیل دیے اور یہ کہا کہ ان کے 11سوالات ہیں۔چیف جسٹس کو وسیع تر بنچ کی تشکیل کے دوران ان تمام 11 سوالات پر غور کرنا ہوگا اور اس کے بعد ہی بنچ کی تشکیل کے معاملے پر فیصلہ کرنا ہوگا۔انہوں نے اس معاملہ کو آئینی بنچ کے پاس بھیجے جانے پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔اسلام میں حجاب کے التزام پراپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے کسی سیکولر ملک میں اپنائے جانے پر سوال کیے ہیں۔ جسٹس ہیمنت گپتا کا کہنا ہے کہ ریاست کے فنڈ سے چلنے والے اسکولوں میں مذہبی عقائد کی ظاہری علامتوں کے ساتھ طلبا کوپڑھنے کی اجازت دینا حق مساوات، یکسانیت اور سیکولرازم کے خلاف ہے۔ایسے طلبا جو مذہبی عقائد پر اصرار کرتے ہیں، ان کیلئے ایسے اسکول بھی ہیں جوا نہیں حجاب یا کوئی اور علامت و نشان پہننے کی اجازت دیتے ہیں۔
اگلے دوتین دنوںمیں سبکدوش ہونے والے جسٹس ہیمنت گپتا کا یہ فیصلہ کوئی چونکادینے والا فیصلہ نہیں ہے۔معاملہ کی سماعت کے دوران ہی انہوں نے جس طرح کے سوالات اٹھائے تھے اس سے ظاہر ہوگیا تھا کہ عزت مآب جسٹس ہیمنت گپتا، سابق چیف جسٹس رنجن گگوئی کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔ حالیہ برسوںمیں کئی جج حضرات نے اپنی سبکدوشی سے قبل ایسے فیصلے دیے ہیںجن کا اثر برسوں اور دہائیوںتک محسوس کیاجاتارہے گا، ان میں سے یہ بھی ایک ہے۔یہ الگ بات ہے کہ جسٹس گپتا کے ارشادات اپنے ساتھی جج سے اختلاف کے سبب فیصلہ کا درجہ حاصل نہیںکرسکے۔
جہاں تک حجاب کا معاملہ ہے، آئین کی مختلف دفعات کے تحت اسے بنیادی حقوق کا درجہ حاصل ہے۔ حجاب و پردہ سمیت مکمل سترپوشی عورت کا انسانی اور جمہوری حق اوراس کی عزت و وقار کی علامت ہے جس کا ذکر جسٹس سدھانشو دھولیا نے بھی اپنے فیصلہ میں کیا ہے۔ہندوستان کا آئین اپنے شہریوں کی انفرادی اور مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔حجاب اور لباس بھی فرد کی آزادی کے زمرے میں ہی آتے ہیں، اس آزادی میں مداخلت کا نہ تو کسی معاشرے کوحق حاصل ہے اور نہ کوئی سپریم کورٹ ہی اس پرا پنی کوئی رائے مسلط کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ویسے بھی مہذب اور باوقار لباس ہر معاشرہ میں عزت و تکریم کی علامت رہاہے۔ ہندوئوں میں بھی پردہ کی قدیم روایت ہے اور یہ پردہ کی انتہائی قسم ہی تھی کہ کچھ عرصہ قبل تک ہندو اپنی بیوائوں کو ستی کی بھینٹ چڑھانے میں بھی فخر محسوس کرتے تھے۔آج بھی وہ بے پردگی کے خلاف ہیں۔لیکن ہندوستان کو ہندوراشٹر بنانے کے جنون میں ایک شدت پسند طبقہ حجاب کی مخالفت پر کمربستہ ہے اوراسے درپردہ حکومت کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اب اس معاملے میں چیف جسٹس کی وسیع تر بنچ کا ملک کو انتظار رہے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS