دینی اور دنیاوی تعلیم میں فرق

0

عقیدت اللہ قاسمی

دوسری اور آخری قسط
اور ایک جگہ دنیا کوترجیح دینے کے برے انجام کی ان الفاظ میں بیان فرمایاتوپھرجب وہ عظیم ہنگاہ برپا ہوگا جس دن انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا اور ہر دیکھنے والے کے سامنے جہنم کو کھول کر رکھ دیا جائے گاتو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی اس کا ٹھکانے جہنم ہوگا۔(سورہ: 79،آیت34 تا39)
اور اللہ تعالیٰ نے جہاں ایک طرف اس امت کی تعریف اس کا مقصدتخلیق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قراردیاہے۔ جس کے لئے ارشادفرمایا ہے دنیا میں بہترین امت تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے مبعوث کیاگیاہ کہ تم نیکی کاحکم دیتے رہو اور بدی سے روکتے رہو اور اللہ پر ایمان رکھو ۔(سورہ: 4 آیت 110)تو اس سے پہلے اسی سورت کی آیت104یہ یہ بھی واضح طورپرفرمادیاکہ تم میں ایک جماعت توضرورہی ہونی چاہئے جو نیکی کی طرف بلائے اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکتی رہے اور جولوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیںگے۔
قرآن کریم کی ان آیتوں کی روشنی میں ان تمام حالات میں دینی تعلیم کی اہمیت اور فرضیت ظاہر ہے جس کی طرف سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صرف ساڑھے تین یا چار فیصد مسلم طلبا ہی توجہ دیتے ہیں جب کہ چھیانوے یا ساڑھے چھیانوے فیصد مسلم طلبا اس دینی تعلیم کی طرف رخ نہیں کرتے نہ ہی کسی کو اتنی بڑی تعداد کے دنیوی یا دنیا تعلیم کی کوئی فکر ہوتی ہے کہ ان میں ایک بڑی تعدادتوخود اسکول یا مدرسہ کی طرف جاکر جھانکنے سے بھی محروم رہتی ہے اور جو بچے عصری تعلیم کے اداروں میں جاتے ہیں وہ دینی تعلیم کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں کہ اول تو مسلمانوں نے عصری تعلیم کے ادارے بہت ہی کم قائم کئے ہیں۔اگرچہ جنوبی بھارت میں مسلم تعلیمی اداروں کی ایک بڑی تعدادپائی جاتی ہے لیکن شمالی بھارت میں اس لحاظ سے برا حال ہے۔ملک کی راجدھانی دہلی میں مسلمانوں کی قائم کی ہوئی دو یونیورسٹیاں ہیں مگر ان کی فیڈنگ کے لئے دہلی میں کالج ایک بھی نہیں ہے۔ملک میں آبادی کے تناسب سے دوسری کمیونٹیزنے جس قدر کالج قائم کئے ہیں مسلمانوں کے قائم کردہ کالجوں کی ان کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ان اداروں کے نظام تعلیم، نصاب تعلیم،وہاں کے طلبا اور انتظامیہ واساتذہ کے سلوک کا جس طرح مسلم طلبا وطالبات کوسامنا کرنا پڑتا ہے ان اداروں کے فیض یافتہ فارغین بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک بہت بڑی تعداد ان حالات کی وجہ سے ڈراپ آئوٹ کا شکار ہوجاتی ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ دینی مدارس کے فارغین یونیورسٹیوں کا رخ کرلیتے ہیں ان کے ساتھ ان کے اساتذہ کا جو سلوک وبرتائو ہوتاہے اور وہاں کا جو ماحول ہوتاہے اس کا جواثر ہوتاہے اس کا نتیجہ کھلے عام دیکھا جاتاہے کہ بیچارے اپنی شناخت تک چھپانے پرمجبورہوجاتے ہیں کہ وہاں کے ماحول ،اساتذہ کی حرکتیں اور نصاب تعلیم کے اثرات کے نتیجہ میں دین تک کو چھوڑ بیٹھتے ہیں، بلکہ وہاں کے رگ میں رنگ کر اپنی سابق مادرعلمی اور دین وملت پر ہی لعن طعن کرنے لگتے ہیں۔
اسلام نے دینی اور دنیاوی تعلیم میں فرق نہیں کیا ہے ، لیکن دینی ،بے دینی ،بد دینی اور دین دشمن تعلیم میں فرق نہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔اسلام کا زندگی کے ہر شعبہ کے ساتھ میں اپنا نقطہ نظر اور خاص تصور ہے ۔مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ ہرشعبہ زندگی سے متعلق اسلامی نقط نظر اور تصور ونظام کا انتظام کریں ،فکر کریں۔اسکولوں اور کالجوں کے میدان میں بھی اس کا انتظام کریں اور مدارس میں بھی بے دینی ،بددینی اور دین دشمنی کا زہر پھیلانے اور پیوند لگانے سے باز آئیں۔سرسید احمد خاں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ مسلمان نوجوانوں کے ایک ہاتھ میں سائنس وفلسفہ ،دوسرے میں قرآن اور سرپرلاالہ الااللہ کا تاج دیکھنا چاہتے تھے۔کیا مولوی سمیع اللہ کے قائم کردہ مدرسۃ العلوم کو 1876میں اینگلومحمڈن اورینٹل کالج میں بدلے جانے کے بعد سے آج تک اس نعرہ کا کوئی عملی نمونہ علی گڑھ سے سامنے آیا ہے ؟ نہیں توکیوں نہیں ؟
rwm

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS