ڈاکٹر علیمؔ عثمانی :یہ دور وہ ہے قلم کارگر نہیں ہوگا

0

محمد حشمت اللہ

اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے قرب میں واقع ضلع بارہ بنکی کی پورے صوبہ میں ہمیشہ اپنی ایک الگ شناخت رہی ہے یہ واحد ضلع ہے جس نے ہر شعبہ حیات میں ایسی شخصیتوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اپنے فن و کمال سے نہ صرف صوبہ بلکہ پورے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ اسی ضلع کے قصبہ دریا باد سے تعلق رکھنے والے فرزند عظیم مولانا عبدالماجد دریابادی ؒنے علم، صحافت ،ادب، فلسفہ اور تفسیر قرآن لکھ کر دنیائے علم و ادب کو منور کر دیا۔یہ سلسلہ اور آگے بڑھا تو شاعری کی دنیا میں آبروئے غزل خمارؔ بارہ بنکوی نے اپنی شاعری سے ایسی د ھو م مچائی کہ بارہ بنکی اول نمبر پر آگیا۔ اس کے بعد استاداشعراء عزیزؔ بارہ بنکوی نے اپنے کلام بلاغت نظام سے شعر و سخن کو ایک نئی روشنی عطاء کی جس سے آ ج طالبان علم فیضیاب ہو رہے ہیں۔ اسی ضلع کے مردم خیز قصبہ کرسی میں اپنے وقت کے طبیب حاذق حکیم محمد نسیم عثمانی کے گھر میں ۸ نومبر۱۹۳۱کو محمد عبدالعلیم عثمانی کی ولادت ہوئی۔ علیم کے معنی ہی جانکار اور علم والا ہوتے ہیں لفظ علیم کا اثر جادو بنکر اس طرح چھایا کہ علمی اور ادبی دنیا میں محمد عبدالعلیم عثمانی ڈاکٹر علیمؔ عثمانی بن کر چھا گئے۔ ہر قدم نے فتح و کامرانی نے ان کی قدم بوسی کی۔ وراثت میں ملے فن طب میں نیک نامی کمانے کے ساتھ ہی انہوں نے جب شعر و سخن کی دنیا میں قدم رکھا تو غزل بھی ان کی جانثار بن گئی۔ ان کا کلام بلاغت سے بھرپور اور رغزل کا آینہ دار ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کی وہ دیکھتے ہی دیکھتے طبیب حاذق کامیاب ہومیوپیتھ معالج اور معروف و مقبول اور کہنہ مشق شاعر شاعر بن کر دنیائے ادب پر چھا گئے۔
گزرنا میرا جس رستے سے دنیا کو گراں گزرا
اسی رستے سے آخر ایک دن سارا جھاں گزرا
یہ حق پرستیاں مری مرہونِ کفر ہیں
یہ دن تو فیضِ صحبتِ باطل سے آئے ہیں
جلادے شوق سے میرا نشیمن باغباں لیکن
رہے محدود ہر شعلہ فقت میرے نشیمن تک
ہے مجھ کو ترکِ تعلق سے اتفاق مگر
دلوں کے بیچ میں دیوار ہو تو در بھی رہے
اے علیم ؔ اپنی یہ ہے دعا پھول بن کر ہنسے وہ صدا
میراکیا میں تواڑ جائوںگا ایک دن خوشبوؤں کی طرح
مرحوم ڈاکٹر علیمؔ عثمانی نے اردو غزل کی آبیاری کی اور اس کی روایات کو برقرار رکھا ۔ لیکن یہ دور وہ تھا جب قدروں کی پامالی میں تیزی در آئی تھی خلوص کی جگہ خود غرضی لیتی جا رہی تھی تعلقات مفادات سے وابستہ ہونے لگے تھے۔ بہ حیثیت ایک حساس شاعر ان ساری تبدیلیوں کا ادراک ان کو تھا جس کا اظہار مختلف اشعار میں ہوا ہے۔
احباب کے کرم کو جو رکھنا ہے برقرار
احباب سے نہ ذکرِ ضرورت کیا کریں
بغیر تیغ اٹھائے گزر نہیں ہوگا
یہ دور وہ ہے قلم کارگر نہیں ہوگا
ان کی نعتیہ شاعری اس بات کی غماز ہیکہ وہ رب ا لعا لمین اور رحمت ا لعالمینؐ کے فرق کو خوب سمجھتے تھے سب سے ذیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے حبیب کبریا ؐکی حمد و ثنا اور اپنی عقیدت و محبت کا شعری اظہار بڑی خلاقانہ اور ہنر مندانہ چابک دستی سے کیا ہے۔ ان کے کلام میں آیات قرآنی اور ا حادیث مبارکہ کے مفاہیم کو مقدم رکھا گیا ہے۔ ان کی شاعری عظمت رسولؐ اور عشق رسول ؐ کی مظہر نظر آتی ہے۔ کسی شاعر کا ایک شعر اگر بارگاہ معبود میں شرف قبولیت حاصل کر لے تو اسکے صدقہ اور برکت سے سفر آخرت کی منزلیں آسان ہو جائیں گی اور یہ اسکا سرمایہ حیات ہوگا۔ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ دیوار کے نام سے ۱۹۹۵ میں شائع ہوکر پذیرائی حاصل کر چکا ہے اور نعتیہ کلام پر مشتمل ایک مجموعہ متاع مغفر ت حال ہی میں شائع ہوا ہے اور دستیاب نظموں غزلوں اور قطعات پر مشتمل تین مجموعے ،نقش اول بام و در اور حرفِ آخر اشاعت کے مراحل میںہیں۔ مختصر طور پر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ مرحوم ڈاکٹر علیمؔ عثمانی نے اپنے کلام سے اردو شعر و ادب کو اس درجہ مالامال کیا ہے آ نے والی نسلیں اور طالبان علم ان سے ہمیشہ ہی روشنی حاصل کرتے رہیں گے ان کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے کہ:۔
جب بزمِ تغزل میں علیمؔ آپ نہ ہوں گے
جو حق ہے غزل کا وہ اد ا کون کرے گا
آیے ہم ۱۰ مئی کو ان کے یوم وفات پر ان کے شعری سرمایہ کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے اور ادب کے فروغ کیلئے کوشاں رہنے کا عہد کریں۔rwm

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS