جمہوری نظام عدل اور دو طرح کی پالیسیاں

0

محمد حنیف خان

ایک جمہوری ملک میں نظام عدل کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے،جس کا تعلق بادی النظر میں تو عدلیہ سے ہوتا ہے لیکن اس کے پس پشت حکومت کا موقف اور اس کی اپنی دو طرح کی پالیسیاں ہوتی ہیں۔ایک پالیسی وہ جس میں آئین کی پاسداری اور اس کے مطابق انصاف کو یقینی بنایا جاتا ہے۔کبھی یہ حقیقی ہوتا ہے اور کبھی غیر حقیقی۔اول الذکر میں حکومت بغیر کسی تفریق مذہب و ملت اور جنس کے ملزمین کا ٹرائل حقیقی شواہد کی بنیاد پر یقینی بناتی ہے اور پھر عدلیہ گواہوں اور شواہد کے تناظر میں اس کو بری کرتی ہے یا پھر قابل تعزیر تصور کرتے ہوئے اس کو سزا دیتی ہے لیکن ثانی الذکر میں اول ذکر کا صرف شائبہ یا اشتباہ ہوتا ہے باقی حکومت اپنے مخالفین کو نمٹاتی ہے۔دستاویزی سطح پر ایسے افراد کو ملزم سے مجرم بنایا جاتا ہے جس میں حکومت اپنے اداروں کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے اپنی خواہش کے مطابق دفعات لگواتی ہے اور پھر عدالت ان ہی بنیادوں پر سزا سناتی ہے۔ثانی الذکر میں بھی دو قسمیں ہیں ایک وہ جس میں حکومت براہ راست ملوث ہوتی ہے یا بطور سازشی شامل ہوتی ہے،دوسرے حکومت کی غیر مرئی پالیسی کے مطابق افسران خود ہی اس طرح کے شواہد وضع کرتے ہیں اور ایک بے گناہ کو ملزم اور پھر مجرم بنا کر عدالت میں پیش کرتے ہیں اور پھر عدالت انہیں سزا دیتی ہے۔دونوں کی ایک دو نہیں متعدد مثالیں موجود ہیں۔ابھی چند دنوں قبل ہریانہ میں ٹریفک پولیس کے ایک داروغہ صاحب جن کا نام ویر پرتا پ ہے نے ایک کارنامہ انجام دیا اور پھر اس کی سلپ کے ساتھ ہی طنزیہ انداز میں ایک پوسٹ لکھی جس کا مفہوم تھا کہ آج میں نے سوچا تھا کہ جمعہ کے دن کسی مومن کا چالان نہیں کروں گاتبھی ساجد میاں گول ٹوپی لگائے ہوئے جمعہ کی نماز ادا کرکے نکلے جن کی موٹر سائیکل پر دو بھٹکے ہوئے نوجوان بھی تھے جس پر ساجد میاں کو تحفے میں 33000روپے کا تحفہ دیا۔اس کے بعد کمنٹ باکس میں جس طرح کی انہوں نے گفتگو اپنے دوستوں سے کی وہ حیران کن تھی، ان کا ایک جملہ اس کے لیے کافی ہے کہ وزن کم نہیں رکھنا چاہیے۔ان کا خود کہنا تھا کہ ان کے اس چالان کو بھرنا لازمی ہے اور اس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ذہنیت کیسی ہے اور ان کی تربیت کہاں ہوئی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔انتظامیہ میں اس ذہنیت کے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ایسے میں انصاف کا کیا عالم ہوسکتا ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
اسی طرح سے مدھیہ پردیش میں جب وہاں کے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ جن گھروں سے پتھر آئے تھے ان کو اب پتھر کے ڈھیر میں تبدیل کیا جائے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔اتر پردیش میں تو آج کل بلڈوزر ہی چل رہا ہے۔ اب دہلی میں بھی یہ بلڈوزر پہنچ گیا ہے،ہر جگہ اس کا استعمال کن افراد کے خلاف کیا جا رہا ہے، اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزاد ہندوستان جہاں آئین کا راج ہے، وہاں ماورائے عدالت اس طرح کے جو فیصلے ہورہے ہیں، ان کاذمہ دار کون ہے؟مرکزی حکومت اولاً خاموش ہے،جبکہ مدھیہ پردیش اور اترپردیش کی حکومتوں کا موقف بالکل صاف ہے،جس پر مرکز کی خاموشی مہر ثبت کرتی ہے۔اگر وہ کبھی بولے گی بھی تو یہ کہہ کر اپنا دامن بچالے گی کہ اس طرح کی کارروائی ریاستی حکومتوں کا مسئلہ ہے اور ریاستی حکومتیں اس کے لیے الگ الگ طرح کے شواہد جمع کرلیں گی۔جیسا کہ ابھی دہلی میں دیکھنے کو ملا۔ میونسپل کارپوریشن نے جہانگیر پوری کی بستیوں اور دکانوں کے انہدام کو غیرقانونی یا پھر ناجائز قبضہ بتایا ہے۔لیکن یہ کون نہیں جانتا کہ یہ کارروائی صرف اس لیے ہوئی ہے کیونکہ یہاں فسادات پھوٹ پڑے تھے،جن کے اسباب کیا تھے،پولیس ان کی جانچ کر رہی ہے لیکن اس جانچ سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ اولاً یہ جلوس غیر قانونی تھا پھر اس طرح کے جلوس میں جس طرح سے تلوار لہرائی جاتی ہے، پستول ہاتھوں میں لے کر نوجوان شامل ہوتے ہیں اور مسلمانوں و اسلا م کے خلاف نعرے بازی کرتے ہیں، وہ جگ ظاہر ہے۔اس کے باوجود ابھی تک جو گرفتاریاں ہوئیں، اس میں دوتہائی سے زیادہ مسلمان ہیں اور ماسٹر مائنڈ بھی مسلم ہی ہیں جبکہ وہ لوگ جو ’جے شری رام کہنا ہوگا‘ کے نعرے لگا رہے تھے، وہ امن پسند ہیں۔پولیس کا آئی ٹی سیل بھی اس طرح کی ویڈیو کلپس پر کسی طرح کی کارروائی نہیں کرتا ہے،جبکہ اسی بار رام نومی کے جلوس میں کئی مساجد پربھگوا جھنڈا لہرانے کی متعدد ویڈیو کلپس وائرل ہوئی ہیں،جسے بہادری سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
اس کو دوسرے پہلو سے دیکھئے کہ کیا اس طرح کا کوئی جلوس مسلمان نکال سکتے ہیں جس میں تلوار اور پستول ہاتھوں میں ہو اور دوسرے مذاہب کے خلاف نعرے بازی ہو رہی ہو؟اس سوال کے جواب سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ جانبداری کا پورا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔بی جے پی جو اس وقت مرکز کے ساتھ ہی متعدد ریاستوں میں اقتدار میں ہے اس کے قومی صدر جے پرکاش نڈا نے حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے جو بیان دیا، وہ قابل مذمت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سب متعدد ریاستوں میں شکست کی وجہ سے کرایا جارہا ہے۔ہندوستان میں قومی اور ریاستی سطح پر کوئی ایسی پارٹی نہیں ہے جس کا تعلق ہار اور جیت سے اس طرح ہو جس سے حکومت پر کسی طرح وہ اثر اندازہو سکیں۔ایسے میں اگر کسی پارٹی کو شکست ہوئی ہے تو اس کے لیے فساد مسلمان کیوں کریں گے؟کیا ان کو وہ نعرے سنائی نہیں دیتے جو ان جلوسوں میں کھلے عام لگائے جاتے ہیں؟کیا جلوسوں کا حلیہ ان کو یا ان کی پولیس کو نہیں دکھائی دیتا جس میں ہتھیاروں کی نمائش اور ان کا استعمال فساد کے وقت ہوتا ہے۔چونکہ پولیس اور انتظامیہ حکومت کی غیر مرئی پالیسی سے واقف ہے، اس لیے جہاں بھی اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے یکطرفہ مسلمانوں کی گرفتاریاں شروع کردیتی ہے اور ماسٹر مائنڈ کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ میں اگر ذرا بھی اور انسانی قدریں بچی ہوں تو وہ سوچیں کہ وہ کس طرح انصاف کو کچل اور مسل رہے ہیں۔لیکن حکومت اس لیے نہیںسوچے گی کیونکہ اسی سے اس کو ان ریاستوں میں جیت حاصل کرنا ہے جن میں اس کی حکومتیں نہیں ہیں اور انتظامیہ کو حکومت سے قریب رہ کر چاندی کا چمچ منھ میں رکھنا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق پولیس جن مسلمانوں کو فسادات کے الزام میں گرفتار کرتی ہے ان میں سے 98فیصد لوگوں پر وہ جرم ثابت ہی نہیں کرپاتی اور بالآخر وہ چھوٹ جاتے ہیں۔یہ طاقتور لوگوں کے دباؤمیں یا ان کی خوشنودی کے چکر میں ظلم ہے، جسے سرکاری ظلم کہا جانا چاہیے۔سرکار اس لیے خاموش رہتی ہے کہ اس کو تو معلوم ہے کہ جب تک یہ بے گناہی ثابت کریں گے تب تک اس کا کام ہوچکا ہوگا اور اس کے ووٹرخوش ہوچکے ہوں گے۔لیکن اس وقت تک ان لوگوں اور ان کے خاندان پر کیا گزرتی ہے،سماج ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتا ہے،اس کی کسی کو فکر نہیں رہتی۔
کب کیا کرنا ہے، اس کے اشارے انتظامیہ اور حکومت کو کہیں اور سے ملتے ہیں کیونکہ زمینی سطح پر وہی سب سے زیادہ سرگرم ہے۔12مارچ کو آر ایس ایس کی ایک سالانہ رپورٹ شائع ہوئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آئین اور مذہبی آزادی کی آڑ میں مذہبی سخت گیری بڑھتی جا رہی ہے اور ایک خاص طبقہ سرکاری نوکریوں میں داخل ہونے کی کوششیں کررہا ہے۔دیکھنے میں یہ چھوٹا سا ایک جملہ ہے لیکن اس جملہ کے رپورٹ میں آنے اور اس کے اچھلنے کے بعد سے اب تک ملک گیر سطح پر رونما ہونے والے واقعات کا جائزہ لے لیں۔رپورٹ میں اشارہ مسلمانوں کی جانب کیا گیا تھا لیکن سچائی اس کے برعکس ہے۔مذہبی تشدد اور سخت گیری جس طرح سے ادھر دیکھنے کو ملی ہے، وہ اس سے قبل نہیں تھی۔یہ پہلی بارہوا ہے جب متعدد شہروں میں ایک ساتھ رام نومی کے جلوس کے موقع پر فسادات ہوئے ہوں اور ہر جگہ مبینہ طور پر مسلمانوں نے ہی پہلے پتھر چلائے ہوں۔اور پھر ہر جگہ مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا ہو اور بلڈوزر سے ان کے مکانات منہدم کیے گئے ہوں۔ جس طرح مساجد کے سامنے گانے بجائے جاتے ہیں اور نعرے بازی کی جاتی ہے کیا اس سے وزارت داخلہ نابلد ہے ؟اس کے باوجود سارا الزام مسلمانوں کے ہی سر پر کیوں تھوپ دیا جاتا ہے؟کیا پولیس کا کام یہی ہے کہ وہ صرف ایک طبقے کے لوگوں کی گرفتاریاں کرے؟
در اصل حکومت اس لیے ایسا کر رہی ہے کیونکہ اس کے سامنے بہت بڑے بڑے اہداف ہیں۔وزیراعظم اور وزیر داخلہ ان معاملات پر صرف اس لیے خاموش ہیں کیونکہ ان کو اس میں سیاسی اور انتخابی فائدے دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن ان کو معلوم ہوناچاہیے حکومت حکمرانی کا نام نہیں ہے بلکہ فاتح زمانہ تو وہ ہے جو دلوں کو جیت لے۔اس وقت کی حکومت دلوں کو چھوڑ سب کچھ جیت رہی ہے کیونکہ اس کے پاس طاقت ہے،مشنری ہے اور ایسے افراد ہیں جن کی ذہنی تربیت بہت پہلے کی جا چکی ہے جو یہ جانتے ہیں کہ وزن کبھی کم نہیں رکھنا چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS