دلی کو ایک بار پھر اجاڑنے کی کوشش؟

0
جمہوری نظام عدل اور دو طرح کی پالیسیاں

عبدالماجد نظامی

ملک کی راجدھانی دلی کی قسمت بھی عجیب ہے۔ اس کے بارے میں یہ تاریخی افسانہ مشہور ہے کہ یہ سات بار اجڑی ہے اور سات بار بسائی گئی ہے۔ اس کی تاریخی حقیقت پر بحث پھر کبھی ہو سکتی ہے لیکن کیا اس وقت ایسا نہیں لگتا کہ ایک بار پھر دلی کو اجاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ اس بار ایسا کرنے والے وہ لوگ نہیں ہیں جو بیرون ممالک سے آتے تھے اور اپنے حریفوں کو شکست دے کر سلطنت کی نئی داغ بیل ڈالتے تھے۔ اس بار فرقہ پرستی یا مذہبی انتہاپسندی کی بنیادپر دلی کو اجاڑنے والے وہی لوگ ہیں جنہیں عوام نے حق رائے دہی کے ذریعہ منتخب کیا ہے اور انتخاب کا عمل پورا ہونے کے بعد انہوں نے باضابطہ حلف اٹھایا ہے کہ وہ دستور کی روشنی میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں گے۔ لیکن جب انسان پاور اور پوزیشن کے نشہ میں چور ہوجائے تو پھر کہاں یاد رہتا ہے کہ دستور کیا ہے اور دستوری ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں۔ طاقت اور کھوکھلی عظمت کا جنون ایسا رنگ دل و دماغ پر چڑھا دیتا ہے کہ ظلم اور انصاف کی پوری ابجدیات ہی بدل کر رہ جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ 20اپریل 2022 کو دلی کے جہانگیرپوری میں پیش آیا۔ اس علاقہ میں ہندو اور مسلمان سبھی کئی برسوں سے آرام سے مل جل کر ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں۔ محنت و مزدوری کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے والے عام لوگ ہیں جنہیں اہل جاہ و ثروت سے کوئی خاص رابطہ نہیں رہتا ہے۔ یہاں پر فرقہ پرستی کا وہ ماحول بھی نہیں پیدا ہوا تھا جو عام طور پر ہمیں مخلوط سوسائٹی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ سبھی لوگ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان اتحاد و یگانگت کے ساتھ رہتے چلے آئے ہیں۔ ایک دوسرے کے خوشی و غم کے ساتھی ہیں۔ ذاتی زندگی کے تعلقات مذہب کے دائرہ سے بالکل الگ رکھے گئے ہیں۔ بلکہ کئی ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ مذہب ان کے درمیان نفرت کے بجائے آپسی بھائی چارہ کو پروان چڑھانے کا ذریعہ رہا ہے۔ جہانگیرپوری کے ہندوؤں نے خود کہا کہ جب مسلمان کسی ہندو کے مندر پر نہ جھنڈا لہراتا ہے اور نہ ہی اس کے سامنے شور و ہنگامہ کرتا ہے تو پھر تشدد پسند ہندو مسجد پر بھگوا جھنڈا کیوں لگاتے ہیں؟ ایک ہندو نے کہا کہ ہم ہندو مسلمان آپس میں مل جل کر رہتے آئے ہیں۔ کبھی ہمارے درمیان ناچاقیاں اور عداوتیں پیدا نہیں ہوئیں۔ یہ تو اس علاقہ سے باہر کے لوگ ہیں جنہوں نے مذہبی جلوس کا استعمال مسلمانوں کو بھڑکانے اور ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے کیا ہے۔ دراصل یہی بات پورے معاملہ کی جڑ ہے۔ ہندوتو کی سیاست جس میں مسلم عداوت بنیادی عنصر کا درجہ رکھتی ہے وہ بھلا یہ کیسے گوارہ کرلے کہ ہندوستان میں کوئی ایسا خطہ بھی موجود رہ جائے جہاں کا ہندو مسلمانوں سے نفرت نہ کرتا ہو۔ اس لیے نفرت کا ماحول تیار کیا گیا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پولیس کی اجازت نہ ملنے کے باوجود وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے غنڈے ہنومان جینتی کا جلوس مسلمانوں کی بستی سے کیوں نکالتے اور اس جلوس میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف غیر مہذب بلکہ نہایت نازیبا نعروں کا استعمال کرکے ماحول کو جان بوجھ کر بگاڑنے کی کوشش کیوں کرتے؟ اور پولیس یا انتظامیہ انہیں ایسے علاقوں سے جلوس نکالنے کی اجازت ہی کیوں دیتی ہے؟ اس واقعہ کے بعد پولیس نے بھی جس طرح سے بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے سماج مخالف عناصر کو گرفتار کرنے کے بجائے اکثر مسلم نوجوانوں کو جیل میں ٹھونس کر اپنی دستوری ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا ثبوت دیا ہے، وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ پورے پولیس محکمہ کو عوام کی نظر میں بے وقعت بنانے کا گھناؤنا جرم ہے۔ اس سے ملک کی راجدھانی دلی کا وقار مجروح ہوگا اور مستقبل میں نظم و انتظام کے مزید مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ وی ایچ پی اور بجرنگ دل جنہوں نے دلی کے ماحول کو خراب کیا ہے، ان کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی جاچکی ہیں لیکن اب تک ایک بھی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ اس کے برعکس آر ایس ایس کے یہ پروردہ پولیس کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر ان کے خلاف کارروائی کی گئی تو وہ اس کا مقابلہ کریں گے۔ کوئی مہذب ہندوستانی کیا اس بات کو گوارہ کر سکتا ہے کہ ملک کے قلب میں ہی پولیس اور انتظامیہ اس قدر بے بس ہوجائے کہ غنڈے پولیس کو دھمکیاں دیں۔ دراصل پولیس نے خود ہی اپنے سیاسی آقاؤں کے تخریبی نظریہ کے ساتھ اتفاق کرکے اپنے لیے دائرہ تنگ کرلیا ہے اور اسی وجہ سے قانون کی کتاب میں لکھے گئے اعلیٰ اصول محض بے معنی الفاظ سے زیادہ وقعت ان کی نظر میں نہیں رکھتے۔ جہانگیرپوری میں جس طریقہ سے واقعات کا سلسلہ چلا ہے، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پولیس پورے طور پر بی جے پی کے ایجنڈہ کو بروئے کار لانے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ ذرا پورے سلسلہ پر غور کیجیے تو صاف سمجھ میں آ جائے گا کہ جہانگیرپوری میں مسلمانوں کی گرفتاری سے لے کر ان کے گھروں، عبادت گاہوں اور دکانوں پر بلڈوزر چلانے تک کے معاملہ میں قانون کا پاس و لحاظ ایک لمحہ کے لیے نہیں کیا گیا۔ پہلے تو مسلمانوں کے عقیدہ و مذہب کے خلاف نعرے بازی کی گئی، پھر مسلمانوں کو ہی گرفتار کیا گیا یعنی 26گرفتارشدگان میں سے 21تو صرف مسلمان ہیں جن میں سے5پر این ایس اے جیسی سنگین دفعات لگائی گئی ہیں۔ اس کے باوجود دلی بی جے پی صدر آدیش گپتا نے نارتھ ایم سی ڈی کے میئر کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ جہانگیرپوری تشدد معاملہ میں گرفتار شدگان کے ’ناجائز قبضے‘ اور تعمیرات کی پہچان کی جائے اور انہیں تباہ کردیا جائے۔ اس کے بعد شمالی دلی میونسپل کارپوریشن نے جس پر بی جے پی کا قبضہ ہے، نارتھ ویسٹ ون کے ڈی سی پی کو لکھا کہ 20 اور 21اپریل کو جہانگیر پوری میں ناجائز قبضہ ہٹانے کے لیے پولیس فورس درکار ہے۔ بس اتنا سننا تھا کہ ڈی سی پی نے بدھ کو آٹھ بجے صبح ہی ایک ہزار کی تعداد میں پولیس، سی آر پی ایف اور ریپڈ ایکشن فورس کے جوانوں کو تعینات کر دیا۔ سوا دس بجے سے مسماری کا عمل شروع کردیا گیا اور سوا بارہ بجے تک جاری رہا، اس دوران سپریم کورٹ کا حکم نامہ آگیا کہ مسماری کے عمل کو روکا جائے اور معاملہ کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے لیکن سپریم کورٹ کے حکم کو بھی ٹیکنیکل گراؤنڈ پر نظر انداز کرتے ہوئے مسلمانوں کے گھروں، مزاروں اور مسجد کو نشانہ بنایا گیا جب کہ اسی سڑک پر واقع مندروں کو بالکل کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو یہ زیب دیتا ہے کہ اس کی پولیس اپنے سیاسی آقا کے اشارہ پر سپریم کورٹ تک کے حکم نامہ کو نظرانداز کردے؟ اگر ایسا ہوتا رہا تو پھر اس ملک میں جنگل راج پھیل جائے گا۔ نہ کسی کی جان اور عزت و آبرو محفوظ رہے گی اور نہ ہی ملک کا مستقبل تابناک ہوپائے گا۔ یہ بلڈوزر جہانگیرپوری کے معصوم لوگوں کے گھروں اور ذریعۂ معاش پر نہیں چلائے گئے ہیں بلکہ ان دستوری قدروں اور اصولوں کی روح پر چلائے گئے ہیں جس کے دم سے اس ملک کی آبرو قائم ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے مسلموں کو بنگلہ دیشی اور روہنگیا مہاجرین کے نام پر نشانہ بنانا اور ان کی شہریت پر سوال کھڑے کرکے ان کے سارے حقوق سے انہیں محروم کرنے کی ہندوتوائی سازش بھی اس ملک کی سالمیت کو روز بروز نقصان پہنچا رہی ہے۔ شاید حالیہ دنوں میں چار ریاستوں کے اندر انتخابی کامیابی حاصل کرلینے کی وجہ سے بی جے پی اور اس حامیوں کے دماغ میں ایک غلط خیال گھر کر گیا ہے کہ فرقہ واریت اور مسلم دشمنی کا راستہ سب سے آسان نسخہ ہے جس سے انتخابی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن انہیں معلوم نہیں ہے کہ ایسی سیاست خود ان کے لیے زوال کا پیغام لے کر آئے گی۔ کیونکہ جب فرقہ پرستی کی آگ سرد پڑ جائے گی اور ہندوؤں کو بھی احساس ہوگا کہ انہوں نے بی جے پی کی حمایت کرکے کیسی غلطی کی ہے تو پھر ان کو کبھی عروج حاصل نہیں ہوگا۔ جہاں تک اس ملک کی اقلیت کا مسئلہ ہے تو وہ زندہ رہیں گے اور پورے عزم و وقار کے ساتھ زندہ رہیں گے اور دستور ہند کے دائرہ میں اپنے تمام حقوق کی بازیابی کے لیے پوری شدت سے کوشاں رہیں گے۔ نفسیاتی طور پر انہیں کمزور کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی جائیں گی وہ سب ناکام ہوں گی کیونکہ مشکل حالات میں صبر و ضبط کے ساتھ زندگی گزارنے کا ہنر انہوں نے سیکھ لیا ہے۔ جہاں تک دلی شہر میں امن و آشتی کی بات ہے تو دلی میں رہنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر ہمیں کس طرح کی سیاست کو فروغ دینا چاہیے اور گہرائی کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ کیا ہم نے ان پچھتّر سالوں میں سیاسی طور پر صحیح فیصلے کیے ہیں اور اب آئندہ کیا سیاسی لائحہ عمل ہونا چاہیے کیونکہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ اس ملک میں سروائیول کے لیے معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط ہونا بہت ضروری ہے، ہمیں آہنی قوت ارادی کے حامل لیڈروں کی ضرورت ہے جو مشکل وقت میں بے خوف لڑائی کے لیے تیار رہتے ہیں۔ برنداکرات نے جو ہمت دکھائی ہے، اس میں اپوزیشن کے باقی ان نیتاؤں کے لیے بھی سبق ہے جو سمجھتے ہیں کہ صرف ایئر کنڈیشنڈ روم میں بیٹھ کر ہی ہندوتو کے فتنہ کا مقابلہ کرلیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا۔ اگر اس ملک میں دستور کی حفاظت کرنی ہے تو سڑک پر اتر کر عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا۔ اسی میں ہندوتو کی شکست کا راز مضمر ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS