لیبیا میں جمہوریت-ہنوز دور است

0

2011سے لیبیا میں کشت وخون کا بازار گرام ہے۔ پوری دنیا نے اس ملک کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ تمام بڑی طاقتیں جنہوں نے لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجاڈالی اور اپنے واحد مقصد کرنل قذافی کو موت کے گھاٹ اور اس عظیم خوش حال اور ترقی یافتہ ملک کو برباد کرنے کے بعد آج پھر اپنی خارجی طاقتوں اور نئے کھلاڑیوں کے ساتھ برباد کرنے کی رہی سہی کسرپوری کرنے کے در پے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگرسپرپاور نے اس ملک کو بازیچہ اطفال بنارکھا ہے۔ اس وقت ہر ملک علاقائی اور قبائلی کشمکش میں بھی پھنسا ہوا ہے۔ امریکہ، روس، ترکی وغیرہ کی افواج اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق تیل اور دیگر معدنی دولت سے مالامال ملک میں کھیل کھیل رہی ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے اگرچہ کچھ بہتر اور مثبت خبریں آرہی ہیں اور مختلف مسلح گروپوں میں افہام وتفہیم کا دور شروع ہوچکا ہے، ایسے حالات میں انتخابات کے انعقاد پر غوروفکر کے دوران شفاف انتخاب کرانے کے لیے حکمت عملی تقریباً تیار ہوچکی ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ نے انتخابی قوانین پر اعتراضات داخل کیے ہیں۔ لیبیا میں اقوام متحدہ کے ایلچی عبداللہ الباتیلی مجوزہ قوانین کے اہم سوالوں کا جواب تلاش کرنے میں ناکام ہیں اور ان قوانین کے تحت الیکشن نہیں ہوپائیں گے۔ لیبیا میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں۔
سیاسی پارٹیاں عسکری گروپ اور اہم عہدیداران ان انتخابات کے قوانین پر راضی نہیں ہوسکے ہیں۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں تازہ ترین صورت حال پر توجہ دلاتے ہوئے اقوام متحدہ کے ایلچی عبداللہ الباتیلینے کہا ہے کہ لیبیا کے دو اہم اداروں کے ذریعہ قوانین کے مختلف پہلوؤں پر متفق ہونا اہم پیش رفت ہے مگر ان کے اعتراضات ابھی بھی برقرارہیں۔ کچھ اہم اور حساس ایشوز پرعدم اتفاق رائے ایک اور بحران کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
جن نکات پر اختلافات ہیں، ان میں صدارتی الیکشن میں کون لوگ امیدوار کے اہل ہوسکتے ہیں اور امیدوار کو کن شرائط پر پورا اترناہوگا۔ خیال رہے کہ کئی لیڈروں کے پاس عسکری اور فوجی عہدے ہیں اور کچھ کے پاس دوہری شہریت ہے، اہم سوال یہ اٹھتاہے کہ کیا دوہری شہریت رکھنے والا امیدوار ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہ سکتا ہے یا کسی فوجی عہدے پر خدمات انجام دے رہی شخصیات پر بھی متمکن رہتے ہوئے سب سے بڑے عہدے کے لیے قسمت آزما سکتاہے؟ ظاہرہے کہ جو لیڈر مذکورہ بالازمروں میں آتے ہیں، اگر ان کو امیدواری کے لائق قرار دیا جاتاہے تو وہ جمہوری عمل میں شامل ہونے کی بجائے دوسرے ’غیرجمہوری‘ یا فوجی طاقت کا استعمال کرکے اپنا اقتدار اور اثر ورسوخ برقرار رکھنے کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔
اس وقت لیبیا میں دو ایوان جو الگ الگ خطوں کی نمائندگی کرتے ہیں، کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں مشرقی خطے کی پارلیمنٹ کے اسپیکر عقلیہ صالح نے کہا ہے کہ مجوزہ قوانین جن پر تقریباً اتفاق ہوگیا ہے اور ہم ان قوانین کے تحت الیکشن کراسکتے ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے ایلچی عبداللہ الباتیلیکے بارے میں کہا ہے کہ وہ (لیبیا) حکمراں نہیں ہیں کہ ہم کو انتخابات کے طورطریقہ اور قوانین سکھائیں گے۔ انتخابات کے قوانین پر اتفاق لیبیا میں جمہوریت کے قیام کے لیے اس لیے ضروری ہے کیونکہ 2021کا الیکشن ان اختلافات کی وجہ سے ملتوی ہوچکا ہے۔
لیبیا میں فی الوقت جو اختلاف ہے، وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں عبدالحمید الدبیبہ کی حکومت کو ملنے والی حمایت پر پیدا ہوگیاہے۔ یہ حکومت دسمبر2021میں تحلیل ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ کے اسپیکر عقیلیہ صالح کو عبدالحمید کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونا تھا مگر عبدالحمید کا کہنا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے اس وقت ہی استعفیٰ دیں گے جب انتخابات میں بنائی گئی انتظامیہ اقتدار سنبھال لے گی۔اس وقت یہی سب سے اہم اور متنازع ایشو ہے۔ صالح پارلیمنٹ کے اسپیکر ہیں اور مغربی خطوں کی نمائندہ اسمبلی اسٹیٹ کونسل کے اسپیکر، اس اقتدار کی دوڑ میں پیش پیش ہیں۔
اہم لیڈر اور لیبیا کے مشرقی فورس کے کمانڈر خلیفہ حفتر مسلسل اس بات کے لیے مصر ہیں کہ ملک میں نئی عبوری حکومت قائم ہو۔ وہ طرابلس میں موجودہ عبوری حکومت عبداللہ الباتیلی کی قیادت والی حکومت کو تحلیل کیے جانے کے حق میں ہیں۔ جنرل حفتر کا مشورہ ہے کہ کسی بھی فریم ورک پر اتفاق رائے پر پہنچنے کے لیے دونوں ایوانوں کے ایوان نمائندگان House of Representativesاور اسٹیٹ کونسل کے 6-6ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی جائے جو نئے انتخابی قوانین پر اتفاق رائے کرچکے ہیں وہ اب چاہتے ہیں کہ نئے انتظامیہ (عبوری حکومت)پر بھی اتفاق کرلیں۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں بتایاگیاہے کہ حمید کی قیادت میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ عبوری حکومت 2021میں قائم ہوئی تھی۔ حفتر اس عبوری حکومت کے قیام کے خلاف تھے مگر وزیراعظم کے عہدے پر جس شخص (عقیلیہ صالح) کو اقتدار سنبھالنا تھا وہ شدید اختلافات کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں نہیں سنبھال پایاتھا، جس سے لیبیا میں زبردست تعطل پیدا ہوگیاتھا۔
سفارتی حلقوں کی کوشش ہورہی ہے کہ دونوں خطوں کے ایوان الیکشن کے ضابطوں پرراضی ہوجائیںتاکہ اس تعطل کو ختم کیا جاسکے۔ لیبیا کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہناہے کہ سیاسی قائدین اور فوجی سربراہان، عسکری گروپوں کے کمانڈر نہیںچاہتے کہ اتفاق رائے بنے اور وہ ملک کے وسائل کو اس طرح کنٹرول کرتے رہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS