بیٹیاں اب تعلیمی اداروں میں بھی محفوظ نہیں : عبدالماجد نظامی

0
Daughters are no longer safe even in educational institutions: Abdul Majid Nizami

عبدالماجد نظامی

بنارس ہندو یونیورسٹی کے کیمپس میں ملک کا امتیازی ادارہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(آئی آئی ٹی) واقع ہے۔ اسی انسٹی ٹیوٹ کی ایک طالبہ کے ساتھ جس وحشی پن اور درندگی کا مظاہرہ تین ایسے نوجوانوں کے ذریعہ کیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ واضح رپورٹیں موجود ہیں کہ ان کا تعلق بی جے پی کے آئی ٹی سیل سے ہے اور ان کی تصویریں وزیراعظم نریندر مودی سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر جے پی نڈا اور بہبودیٔ خواتین و اطفال کی وزیر اسمرتی ایرانی سبھی کے ساتھ ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان مبینہ ملزمین کے بارے میں یہ بات بھی اب واضح ہوچکی ہے کہ حالیہ مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات میں ان کی خدمات لی گئی تھیں۔ یہ تمام باتیں اس افسوسناک صورت حال کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بچیوں اور بیٹیوں کے تحفظ کا دعویٰ جو پارٹیاں کرتی ہیں اور جن کی حکومتیں مرکز اور ریاست دونوں جگہوں پر موجود ہیں، ان سے وابستہ افراد ہی اتنے سنگین جرائم میں ملوث پائے جارہے ہیں تو پھر عام انسان کا اعتماد قانون کی بالادستی پر کیسے بحال ہوگا؟ آئی آئی ٹی-بی ایچ یو کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان سے تو ہندوستان کے تمام والدین اپنی بچیوں کو گھر سے دور تعلیم اور جاب کی غرض سے بھیجتے ہوئے خوف محسوس کریں گے اور اس کا سیدھا اثر بچیوں کی تعلیم و ترقی پر پڑے گا۔ آئی آئی ٹی-بی ایچ یو کی جس طالبہ کی اجتماعی عصمت دری کا واقعہ پیش آیا ہے، اس پر تو یہ الزام بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ وقت بے وقت اپنے ہاسٹل کیمپس سے باہر گئی ہوئی تھی جیساکہ عام طور پر بچیوں پر الزام لگاکر ان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ طالبہ تو رات کے کھانے کے بعد اپنے ہاسٹل کے ارد گرد ہی اپنی ایک دوست طالبہ کے ساتھ چہل قدمی کررہی تھی کہ تبھی ان تین اوباشوں نے اسے اپنی شیطانی ہوس کا نہ صرف شکار بنایا بلکہ اس غیرانسانی حرکت و شیطنت کو کیمرہ میں قید بھی کیا۔ ظاہر ہے کہ اس شنیع عمل کا مقصد متاثرہ کو خاموش رکھنا رہا ہوگا۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو اس پورے معاملہ کا یہ ہے کہ جب اس طالبہ نے ادارہ کے اعلیٰ ترین ذمہ داروں سے اپنے ساتھ ہوئے واقعہ کی شکایت کی تو بجائے اس کے کہ اس کے زخم پر مرہم رکھا جاتا اور ہر طرح اسے انصاف کا نہ صرف یقین دلایا جاتا بلکہ اس کو یقینی بنایا جاتا، ان اعلیٰ ذمہ داروں نے اس طالبہ کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی کوئی کارروائی کی۔ جب اسٹوڈنٹس نے اس معاملہ پر احتجاجات اور مظاہرے شروع کیے تب کسی حد تک پورے معاملہ کی حقیقت سامنے آئی لیکن اس کے باوجود مبینہ ملزمین کو گرفتار نہیں کیا گیا، ٹال مٹول کا سلسلہ چلتا رہا اور اس طرح تقریباً60دنوں تک مبینہ ملزمین آزاد پھرتے رہے جبکہ متاثرہ ذہنی کوفت اور بے بسی کی مار سہتی رہی۔ اب جبکہ تقریباً دو مہینے کے بعد30دسمبر کو پولیس نے ان مبینہ اوباشوں کو گرفتار کر لیا ہے تو اب یہ امید کی جانی چاہیے کہ انہیں قرار واقعی سزا ملے گی اور ایسی مثال قائم کی جائے گی کہ آئندہ پھر کوئی اوباش شخص ہمارے ملک اور سماج کی بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے قبل اپنے انجام کو سوچ کر سہم جائے اور اپنی حیوانیت کا شکار بنانے سے باز رہ جائے۔ آئی آئی ٹی-بی ایچ یو معاملہ اس اعتبار سے نہایت تکلیف دہ ہے کہ ان مبینہ ملزمین نے اس گھناؤنے عمل کا ارتکاب پہلی بار نہیں کیا ہے۔ اس سے قبل بھی کیمپس میں جو چھیڑخانی کے تین واقعات رونما ہوئے تھے، ان میں بھی ان اوباشوں کے ملوث پائے جانے کی بات پولیس نے بتائی ہے۔ جب اس قدر اعلیٰ معیار کے اداروں میں بچیاں اور طالبات غیر محفوظ ہیں تو پھر ہمیں اندازہ کرنا چاہیے کہ باقی چھوٹی جگہوں پر ملک کی بیٹیوں اور بچیوں کو کن کن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہوگا اور انہیں انصاف دلانے میں کس قسم کی مشکلات پیش آتی ہوں گی۔ ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ آخر ملک کے میڈیا نے اس پورے واقعہ پر اسی طرح توجہ کیوں مرکوز نہیں کی جس طرح 2012میں دہلی کے اندر نربھیا کے ساتھ نہایت دل دوز واقعہ کے پیش آنے کی صورت میں کی گئی تھی؟ کیا اس لیے ایسا کیا گیا کیونکہ مبینہ ملزمین کا تعلق ارباب اقتدار سے بہت گہرا ہے؟ یا اس لیے کہ یہ واقعہ دہلی کے بجائے بنارس میں پیش آیا ہے جہاں اپوزیشن کی کوئی پارٹی برسر اقتدار نہیں ہے؟ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر میڈیا اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری کے ساتھ نہیں نبھائے گا تو نہ جانے کتنے مظلوم گمنامیوں میں سسکیوں کے دوران دم توڑ دیں گے اور انصاف کا خون ہوجائے گا۔ مجبور و مقہور عوام اور حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کی آواز بننا اور ان میں یہ اعتماد پیدا کرنا کہ ان کے حقوق کے دفاع کے لیے میڈیا موجود ہے، یہی اس پیشہ کا سرمایۂ افتخار ہے۔ ارباب اقتدار کی چاکری، اوباشوں کا دفاع یا ان کے بدنما کرتوتوں پر پردہ ڈالنا، اس پیشہ کو داغ دار کرتا ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے جہاں امن قائم ہو، عزت و آبرو محفوظ ہو اور جان و مال کو کسی بھی طرح کا خطرہ درپیش نہ ہو تو ہمیں ہر حال میں یہ کوشش کرنی ہوگی کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تمام انتظامات کیے جائیں اور جو سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں، ان کو ان کی مطلوبہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے مجبور کیا جائے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بچیوں کے ساتھ دسمبر2012کو دہلی میں وقو ع پذیر ہونے والی حیوانیت،2013کو ممبئی کے شکتی مِل والی بربریت اور 2019میں حیدرآباد جیسے سنگین واقعات پیش نہ آئیں تو ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ملک کے تمام ادارے اس معاملہ پر ادنیٰ کوتاہی سے بھی باز رہیں۔ اس ملک کی سیاسی پارٹیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ووٹروں کو یقین دلائیں کہ ان کے یہاں مجرموں اور اوباشوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ جب مجرموں کو سیاسی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے تو سماج میں انصاف کے تئیں نا امیدی پیدا ہوجاتی ہے جو کہ ایک کامیاب جمہوری نظام کی بقاء کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں اگر ترقیوں کی منازل طے کرتے رہنا ہے تو بیٹیوں کے تحفظ کو صرف نعروں میں نہیں بلکہ حقیقت کی زمین پر بھی یقینی بنانا ہوگا۔ اسی سے بہتر مستقبل کا خواب شرمند ۂ تعبیر ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS