کورونا کی دوسری لہر :سرکار اور عوام

0

ونیت نارائن

پچھلے سال ہم بے حد جوش میں اپنا سینہ تان رہے تھے کہ کورونا کو کنٹرول کرنے میں بھارت دنیا میں سب سے آگے نکل گیا ہے لیکن آج پھر ہم خوف زدہ ہیں۔ کورونا سے لڑنے کے لیے مرکز اور ریاستی سرکاریں اپنے اپنے طریقے سے مختلف قدم اٹھا رہی ہیں۔ جہاں آسام، بنگال اور کیرالہ جیسی انتخابی ریاستوں میں کوئی پابندی نہیں ہے وہیں دوسری ریاستوں میں ماسک نہ پہننے پر پولیس پٹائی بھی کر رہی ہے اور چالان بھی۔ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ جن ریاستوں میں انتخابات ہوتے ہیں وہاں گھسنے سے کورونا کیوں ڈرتا ہے؟ جواب نہ کسی سرکار کے پاس ہے، نہ کسی سائنس داں کے پاس ہے۔

حالیہ کچھ ہفتوں میں کورونا نے جو رفتار پکڑی ہے، اس سے عام آدمی اور سرکاری نظام ایک بار پھر سے تشویش میں ہیں۔ ادھر دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے نے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق اگر آپ اپنی بند گاڑی میں اکیلے بھی سفر کر رہے ہیں تو بھی ماسک لگانا لازمی ہے۔ یہ بات سمجھ سے پرے ہے، اس لیے سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر کافی زوردار بحث چھڑ گئی ہے۔ لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ بند گاڑی میں اکیلے سفر کرنے والے کو کورونا کا خطرہ زیادہ ہے یا سیاسی ریلیوں اور پروگراموں میں بغیر ماسک آنے والی بھیڑ کو؟

جس طرح کچھ ریاستوں میں کورونا کی روک تھام کے لیے رات کا کرفیو لگایا گیا ہے، اس سے لوگوں کو خوف ستا رہا ہے کہ کہیں انتخابات کے بعد پھر سے لاک ڈائون نہ کر دیا جائے۔ پچھلے لاک ڈائون کا صنعت و تجارت پر زبردست منفی اثر پڑا تھا جس سے ملک کی اقتصادیات ابھی ابھر بھی نہیں پائی ہے۔ سب سے زیادہ مار تو چھوٹے تاجروں اور کامگاروں نے جھیلی، اس لیے آج کوئی بھی لاک ڈائون کے حق میں نہیں ہے۔ چھوٹے تاجر کی تو سمجھ میں آتا ہے لیکن صنعت کار انل امبانی کے بیٹے انمول امبانی تک نے ٹوئٹ کی ایک سیریز پوسٹ کر کے پوچھا ہے کہ ’جب فلم اداکار شوٹنگ کر سکتے ہیں، کرکٹر دیر رات تک کر کٹ کھیل سکتے ہیں، لیڈر بھاری عوامی اجتماع کے ساتھ ریلیاں کر سکتے ہیں، تو تجارت پر ہی روک کیوں؟ ہر کسی کا کام اس کے لیے اہم ہے۔‘ انمول نے ٹوئٹ میں کورونا وبا کی توسیع کو روکنے کے لیے لگائے جانے والے لاک ڈائون کو اسکیمڈیمک تک کہہ دیا۔ ادھر بھارت کے سائنس دانوں نے دن رات تحقیق اور کڑی محنت کے بعد کورونا کی ویکسین بنائی ہے لیکن بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ کورونا وبا کو ویکسین کی ڈھال دے کر ہندوستانی کمپنی بھارت بائیوٹک کے ذریعہ بنائی گئی کورونا کی ویکسین ’کوویکسین‘ کی کامیابی کے پیچھے حیدرآباد کے نزدیک ’جینوم ویلی ‘ کا ہاتھ ہے۔ ’جینوم ویلی‘ اصل میں حیاتیات کا ایک ریسرچ سینٹر ہے۔ اس وقت یہ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے، جہاں لاکھوں کی تعداد میں ویکسین کی ایجادات ہوتی ہیں اور بنائی جاتی ہیں۔ 1996 میں جب ایک ہندوستانی این آر آئی سائنس داں ڈاکٹر کرشنا اِلانے بھارت بائیوٹک کمپنی کی تشکیل ’جینوم ویلی‘ میں کی تھی تو انہیں ذرا بھی خیال نہیں رہا ہوگا کہ ایک دن ’جینوم ویلی‘ ہی دنیا کو کورونا وبا سے لڑنے والی ویکسین مہیا کرے گی۔ ’جینوم ویلی‘ کو بنانے میں تلنگانہ کیڈر کے سینئر آئی اے ایس افسر بی پی آچاریہ اور ان کی ٹیم کااہم تعاون رہا جنہوں نے رات دن ایک کر کے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ آج ’جینوم ویلی‘ حیاتیات کا ایسا مرکز بن چکی ہے جہاں 300 سے زیادہ دوا کمپنیاں ہیں جو نہ صرف کورونا اور دیگر بیماریوں کی ویکسین بنا رہی ہیں بلکہ 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کو روزگار بھی دے رہی ہیں۔ کئی دہائی پہلے اٹھائے گئے اس قدم کی بدولت آج ہم کورونا جیسی وبا سے لڑنے میں اہل ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کرشنا اِلا کی دور اندیشی اور بی پی آچاریہ جیسے کام کے تئیں وقف عہدیداروں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا ہے۔ اس کے باوجود دوسری لہر کے ساتھ کورونا پورے دم خم سے لوٹ آیا ہے۔ کچھ ہی مہینوں پہلے اس کا اثر کم ہوتا نظر آیا تو لوگوں نے اس سلسلے میں احتیاط برتنی کم کر دی تھی۔ متاثرہ اقتصادیات، ریاستوں میں انتخابات اور دیگر ایشوز پر عوام کی توجہ زیادہ ہو گئی تھی لیکن حالیہ کچھ ہفتوں میں کورونا نے جو رفتار پکڑی ہے، اس سے عام آدمی اور سرکاری نظام ایک بار پھر سے تشویش میں ہیں۔ ادھر دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے نے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق اگر آپ اپنی بند گاڑی میں اکیلے بھی سفر کر رہے ہیں تو بھی ماسک لگانا لازمی ہے۔ یہ بات سمجھ سے پرے ہے، اس لیے سوشل میڈیا پر اس فیصلے پر کافی زوردار بحث چھڑگئی ہے۔
لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ بند گاڑی میں اکیلے سفر کرنے والے کو کورونا کا خطرہ زیادہ ہے یا سیاسی ریلیوں اور پروگراموں میں بغیر ماسک آنے والی بھیڑ کو؟ ادھر اترپردیش کے سہارنپور کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جہاں کچھ عہدیدار ایک دکاندار کو ٹھیک سے ماسک نہ پہننے پر دھمکاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ گرما گرمی کے بعد معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے لیکن اس ویڈیو میں واضح طور پر یہ نظر آتا ہے کہ جو عہدیدار اس تاجر کو دھمکا رہا ہے، اس نے خود ٹھیک سے ماسک نہیں لگا رکھا ہے۔ ایسے دوہرے معیار کیوں اپنائے جا رہے ہیں؟ کئی شہروں میں پولیس والے ماسک نہ پہننے پر عام لوگوں کی بے رحمی سے پٹائی بھی کر رہے ہیں جس سے مشتعل عوام نے بھی پولیس والوں کی پٹائی کی ہے۔ سرکاروں کو پولیس والوں کو یہ ہدایت دینی ہوگی کہ وہ ضابطے کی عمل آوری میں سختی تو برتیں لیکن انسانی حساسیت کے ساتھ، ورنہ سماج میں بے چینی پھیل جائے گی، پر ساتھ ہی کورونا کی دوسری لہر میں بڑھتے ہوئے مریضوں اور اموات کو بھی ہمیں سنجیدگی سے لینا ہوگا اور احتیاط برتنی ہوگی۔
لاک ڈائون کی حالت نہ آئے، اس کے لیے ہم سب کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ کورونا کی دوسری لہر بھارت میں تب آئی ہے، جب ہمارے پاس اس سے لڑنے کے لیے ویکسین کی صورت میں ایک نہیں بلکہ دو دو ہتھیار ہیں، پر ابھی تو ملک کے کچھ ہی لوگوں کو ویکسین ملی ہے۔ پھر بھی بھارت نے کورونا ویکسین کو دوسرے ملکوں میں بھیج دیا ہے۔ یہ بین الاقوامی سفارت کاری کے نقطۂ نظر سے قابل ستائش قدم ہو سکتا ہے لیکن ملک کے باشندوں کی صحت اور زندگی بچانے کے نقطۂ نظر سے صحیح قدم نہیں تھا۔ سرکاروں کو ویکسین لگانے کی مہم کو اور تیز کرنا ہوگا، جس سے وبا کے قہر سے بچا جاسکے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS