کورونا: بچوں پرخطرہ کتنا بڑا

اس بات کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ آنے والی کوئی لہر بچوں کو زیادہ اور سنگین طور پر متاثر کرے گی، پھر بھی ہمیں تیار رہنا چاہیے

0

چندرکانت لہریا

گزشتہ کچھ دنوں سے یہ بات ذکر کا موضوع بنی ہوئی ہے کہ کورونا کی تیسری لہر آئے گی اور خاص طور پر بچوں کو متاثر کرے گی۔ اس بحث کی شروعات کیسے ہوئی، یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن آس پاس ہوئے کئی واقعات نے اس بات کو تقویت دی۔ جیسے سپریم کورٹ کی ایک بنچ نے سماعت کے دوران حکومت سے پوچھا کہ بچوں کو تیسری لہر سے بچانے کے لیے اس کے پاس کیا منصوبہ ہے؟ مہاراشٹر نے بچوں میں کووڈ کی نگرانی کے لیے ایک الگ ٹاسک فورس کی تشکیل کی ہے۔ کرناٹک کے چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کمیشن نے ہر ضلع میں کووڈ-19سے نمٹنے کے لیے چائلڈ میڈیکل ٹاسک فورس تشکیل کرنے کا مشورہ دیا۔ کچھ ڈاکٹروں اور ماہرین نے اپنے بیان میں بچوں کے سنگین طور پر متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا۔ ان سب سے انجانے میں یہ پیغام موصول ہوا کہ تیسری لہر یقینی طور پر بچوں کو زیادہ متاثر کرے گی، جب کہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
اب تک کئی ملک وبا کی تین یا چار لہروں کا سامنا کرچکے ہیں، مگر دنیا کے کسی بھی حصہ سے ایسا کوئی سائنسی ثبوت(scientific evidence) نہیں ملا، جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ کسی خاص لہر میں بچے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اپنے یہاں بھی دہلی جیسی ریاست پہلے ہی چار لہر دیکھ چکی ہے اور کسی میں بھی بچوں کے زیادہ بیمار ہونے کی خبر نہیں ہے۔ شہر، ریاست یا قومی سطح پر ہوئے سلسلہ وار سیروسروے بھی یہی بتاتے ہیں کہ بچوں میں بھی کسی دیگر عمر گروپ کے مساوی انفیکشن ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ سنگین بیمار نہیں ہوتے، کیوں کہ کووڈ-19جس اے سی آئی-2ریسیپٹر پر حملہ کرتا ہے وہ بچوں میں کم نشوونما پاتا ہے اور وائرس بچوں کے پھیپھڑوں تک پہنچنے کا راستہ نہیں تلاش کرپاتا۔ پھر بھی سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں سوچا جارہا ہے کہ اگلی لہر میں بچے زیادہ متاثر ہوں گے؟

بچوں کے لیے ٹیکہ کاری بھی ہمارے قومی و ریاستی سطح کے منصوبوں کا حصہ ہونا چاہیے۔ ضروری یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر اپنی رائے اسپتالوں یا صحت مراکز کے اپنے تجربات کی بنیاد پر بنائیں اور تمام پہلوؤں پر غور کریں۔ مجموعی طور پر ابھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ تیسری لہر(جب بھی یہ ہوگی) میں ہمارے نونہالوں پر سب سے زیادہ خطرہ ہونے کے دعوے میں دم نہیں ہے۔ ہاں، بے وجہ کی تشویش کے بغیر ہمیں اپنی تیاری ضرور رکھنی چاہیے۔

پہلی بات، یہ ممکن ہے، کئی ڈاکٹروں نے اس مرتبہ پہلی لہر کے مقابلہ میں بچوں میں زیادہ معاملے دیکھے ہوں، لیکن یہ سچ ہر عمر کے گروپ کے لیے ہے، کیوں کہ اس مرتبہ پورے ملک میں کورونا انفیکشن کے معاملے چار سے چھ گنا بڑھ گئے ہیں۔ ظاہر ہے، ڈاکٹروں(جن کے پاس صرف ان مریضوں کی معلومات ہوتی ہے جو انہوں نے دیکھے۔ اسے نمبریا ہندسہ (Numerator or numeter) کہیں گے) اور وبا و اسٹیٹسٹیکل ایکسپرٹس(Statistical experts) (جن کے پاس پوری آبادی کے لحاظ سے واضح تصویر ہوتی ہے)کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، تبھی صحیح تصویر سامنے آسکے گی۔
دوسری بات، بچوں کے بیمار ہونے پر جب اسپتال جانے کی نوبت آتی ہے تو لوگ قریبی اسپتال یا ہیلتھ سینٹر جانے کے بجائے ہمیشہ ’اگلے اعلیٰ سطح کی بہتر سہولتوں والے اسپتال‘ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیسے گاوؤں میں رہنے والے لوگ شہروں میں آتے ہیں، شہر والے بڑے شہر جانا چاہتے ہیں اور بڑے شہر والے میٹروسٹیز میں۔ اسی لیے ہوسکتا ہے کہ میٹروسٹیز اور بڑے اسپتالوں میں کام کررہے ڈاکٹروں نے دوسری لہر میں نسبتاً طور پر زیادہ بچوں کو دیکھا ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھ ہی ہفتے پہلے نیتی آیوگ اور آئی سی ایم آر نے جب دونوں لہروں میں عمر کے گروپوں کا موازنہ کرتے ہوئے اعدادوشمار جاری کیے تھے، تب اس میں بتایا گیا کہ دوسری لہر میں اسپتال میں داخل کل مریضوں میں 20سال سے کم عمر والے مریضوں کی حصہ داری 5.8فیصد ہے جبکہ پہلی لہر میں یہ اعدادوشمار 4.2فیصد تھے۔ ظاہر ہے بچوں میں انفیکشن اب بھی کم ہے اور تبدیلی نہ کے برابر۔
تیسری بات، فی الحال اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ہیں کہ کورونا وائرس زیادہ بچوں کو سنگین بیمار کررہا ہے۔ پھر، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کورونا کے بڑھتے معاملات کو سنبھالنے کے لیے جس طرح سے اضافی عارضی سینٹر بنائے گئے، بچوں کے لیے اس طرح کے اضافی انتظامات نہیں کیے گئے۔ اسی لیے اسپتالوں میں بستر اور وینی لیٹر کی کمی کے سبب صرف سنگین اور انتہائی سنگین مریضوں کو ہی داخل کیا گیا، پھر چاہے وہ کسی بھی عمر کے گروپ کے ہوں۔ اس سے علاج میں شامل ڈاکٹروں کو محسوس ہوا ہوگا کہ اس مرتبہ سنگین مریضوں کی تعداد زیادہ ہے، جب کہ اس کا بنیادی سبب تھا، ٹرائز، یعنی مریضوں کے داخلہ کے سلیکشن کا طریقہ۔
واضح ہے، اس بات کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ آنے والی کوئی لہر بچوں کو زیادہ اور سنگین طور پر متاثر کرے گی۔ پھر بھی وبا کو قابو میں کرنے کی مؤثر حکمت عملی کے تحت حکومتوں کو دونوں لہروں میں عمر، جنس اور دیگر معیار پر کووڈ-19کے دستیاب اعدادوشمار کا تجزیہ ضرورکرنا چاہیے اور ان کے نتائج کو عام بھی کرنا چاہیے۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ حقائق پر مبنی حکمت عملی بن سکے اور خوف پیدا کرنے والے بے بنیاد دعوؤں یا دلیلوں کی ہوا نکالی جاسکے۔
ساتھ ہی، مرکزی اور ریاستی دونوں سطحوں پر حکومتوں کو تیسری لہر میں ہر حالت(جو ڈاٹا پر مبنی ہو، رائے پر مبنی نہیں) سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بچوں کے لیے بھی کووڈ جانچ اور علاج کے بہتر انتظام ہونے چاہیے۔ سبھی عمر کے گروپ کے لیے جینومک سکوینسنگ اور تشخیص سے متعلق مطالعے مستقل طور سے ہونے چاہیے۔ اچھا تو یہ ہوگا کہ بجائے ایک الگ ٹاسک فورس کے چائلڈ ہیلتھ اسپیشلسٹ کو شامل کرتے ہوئے ریاستی سطح پر پہلے سے سرگرم انٹیگریٹڈ ٹاسک فورس ہی سبھی حکمت عملیوں اور منصوبوں کو مجموعی طور پر دیکھے۔
بچوں کے لیے ٹیکہ کاری بھی ہمارے قومی و ریاستی سطح کے منصوبوں کا حصہ ہونا چاہیے۔ ضروری یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر اپنی رائے اسپتالوں یا صحت مراکز کے اپنے تجربات کی بنیاد پر بنائیں اور تمام پہلوؤں پر غور کریں۔ مجموعی طور پر ابھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ تیسری لہر(جب بھی یہ ہوگی) میں ہمارے نونہالوں پر سب سے زیادہ خطرہ ہونے کے دعوے میں دم نہیں ہے۔ ہاں، بے وجہ کی تشویش کے بغیر ہمیں اپنی تیاری ضرور رکھنی چاہیے۔
(مضمون نگار لائف پالیسی اینڈ ہیلتھ سسٹم کے ایکسپرٹ ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS