کورونا : پھر سراسیمگی

0

نادیدہ جرثومہ کورونا وائرس نے ایک بار پھر لوگوں کو دہشت زدہ کرنا شروع کردیا ہے۔ تین مہینہ کے عرصہ میں پہلی با ر ہواہے کہ ملک بھر میں ایک دن میں وائرس کی منتقلی کے 28903نئے معاملات سامنے آئے ہو ں۔ ان میں سے اکیلے17864یعنی 84فیصد معاملات مہاراشٹر کے ہیں۔کیرالہ کے علاوہ بہار، ہریانہ، پنچاب، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، دہلی، جموں و کشمیر، تمل ناڈو اور کرناٹک میں انفیکشن کے معاملات تیزی سے سامنے آنے لگے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس کی یہ دوسری لہر پہلے سے زیادہ خطرناک ہے اور منتقلی کی رفتار میں بھی تیزی آئی ہے۔اگر اس رفتار پر روک نہیں لگائی گئی تو ایک سال پہلے والی خطرناک صورتحال پھر پیدا ہوجانے کاسنگین خدشہ ہے۔ مرکزی حکومت کو خدشات کی اس سنگینی کا اندازہ ہے اور وہ اس سے نبردآزما ہونے کیلئے بھی سرگرم ہوگئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے بدھ کو ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ویڈیوکانفرنسنگ کی اورآگے کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہمیں ہر صورت کورونا وبا کو شکست دینا ہے۔ اس موذی وبا سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم نے اپنی آزمودہ ترکیب بھی بیان کی جس میں ماسک لگانا، محفوظ دوری کا خیال رکھنا، ٹیکہ لگانا اور آر ٹی -پی سی آر ٹسٹ کی رفتار بڑھانا شامل ہے۔ وزیراعظم کی ترکیب او ر احتیاطی اقدامات پر عمل آوری کے نتائج کتنے مؤثر ہوں گے یہ تو وقت بتائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اچانک یہ دوسری لہر کا ظہور کیسے ہوگیا؟
حکومتی سطح پر عرصہ تین چار ماہ سے یہ ڈھنڈورا پیٹاجارہاتھا کہ مہاراشٹر اور کیرالہ جیسی چند ایک ریاستوں کو چھوڑکر پورے ملک میں کورونا وائرس کی منتقلی تھم گئی ہے۔ٹیکہ کاری کی وجہ سے لوگوں کا مدافعتی نظام مضبوط و قوی تر ہوگیا ہے جو وائرس ختم کرنے کا سبب ہے۔ یومیہ 30لاکھ افراد کو کورونا سے بچائو کا ٹیکہ لگایاجارہاہے اور ریکوری ریٹ بھی96فیصدسے زیادہ ہوگیا ہے۔لیکن ایک ہفتہ سے کورونا کی دوسری لہر کے نام پر پھرسے پورے ملک میں سراسیمگی پھیلنی شروع ہوگئی ہے۔ملک کے کئی شہروں میں رات کا کرفیو اور کہیں کہیں تو دن کا کرفیو اور اسمارٹ لاک ڈائون بھی شروع کردیاگیا ہے۔ گجرات حکومت نے احمد آباد، ودودرا، سورت اور راج کوٹ میں رات کے کرفیو میں 31 مارچ تک توسیع کردی ہے، پارکوں اور دوسرے عوامی مقامات کوبھی بند کردیاگیا ہے۔ مدھیہ پردیش حکومت نے بھوپال اور اندور شہر میں رات کا کرفیو لگادیا ہے۔اسمبلی کی کارروائی غیر معینہ مدت کیلئے معطل کردی ہے۔ مہاراشٹر کی حکومت نے پونے ، اورنگ آباد، ناگپور سمیت ریاست کے 10دوسرے اضلاع میں بھی پابندیاں عائد کردی ہیں۔ ان ریاستوں کے اسکولوں میں پھرسے تالے لگادیے گئے ہیں۔
احتیاطی اقدامات اور تدابیر پرعمل کے ساتھ ساتھ حکومت کو اس سوال کا بھی جواب دینا چاہیے کہ یہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی؟کیا اس کیلئے ریاستی حکومتیں ذمہ دار ہیں یا یہ بلا عوام نے خود ہی اپنے سرلے لی ہے؟عالمی صحت تنظیم روزاول سے زوردیتی رہی ہے کہ وبا کاخطرہ ٹلا نہیں ہے اور کئی ملکوں کو دوسری اور تیسری لہر کا بھی سامنا کرناپڑسکتا ہے۔اس کے باوجود اگر لاپروائی ہوئی ہے تو یہ انسانی جانوں سے کھیلنا ہی کہاجائے گا۔لاک ڈائون ختم کرنے کے ساتھ ہی مرکزی حکومت نے ریاستوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیاتھا۔ مرکزی سطح سے جاری ہونے والی ہدایات کا سلسلہ بند کرکے نگرانی کے تمام وسائل سمیٹ لیے گئے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وائرس متاثرین کی شناخت کرکے انہیں قرنطینہ میں رکھے جانے کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔کہاجاتا ہے کہ کورونا کاایک متاثرہ شخص کم از کم80افراد کو اس مرض کی لپیٹ میں پہنچادیتاہے۔اس کے باوجود ریاستوں میں خصوصی کیمپ لگاکر کیے جانے والے آر ٹی -سی پی آر ٹسٹ کا سلسلہ بھی موقوف کردیاگیا۔ ٹیکہ لگانے کی کارروائی شروع ہوتے ہی عوام میں طرح طرح کی بدگمانیاں گھر کرنے لگیں جس کے ازالہ کی بھی کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔ اس سنگین لاپروائی کی وجہ سے لوگ دو سرالازمی ٹیکہ لینے سے بچنے لگے۔
خرابی اور بگاڑکی نشاندہی کرکے اس کی اصلاح کیے بغیر صرف احتیاطی اقدامات کے اعلان سے مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔نیز کورونا وائرس کی حقیقت سے متعلق بھی عوام میںپائی جانے والی متضاد آرا کا معاملہ بھی تصفیہ کا طالب ہے۔ کچھ لوگ اس وائرس کو سازش کے نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں تو کچھ اسے دوابنانے والی کمپنیوں کی جانب سے ٹیکہ بیچنے کی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں تو بعض حلقوں میں معمولی فلو قرار دے کر اس کی سنگینی کم کی جارہی ہے جب کہ کچھ حلقوں میں یہ تھیوری گردش کررہی ہے کہ وبا محض حکومتوں کا ایک ہتھ کنڈا ہے اور وہ اس کے ذریعہ شہریوں کی آزادی چھیننا چاہتی ہیں۔یہ تمام حلقے اپنی اپنی رائے کے حق میں منطقی دلیلیں بھی دے رہے ہیں جنہیں مسترد کرنا آسان نہیں ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ عوام کے ذہن میں ابھرنے والے ان سوالات کے جواب بھی دے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS