حجاب پر تنازع سیاست کے گھناؤنے کھیل کا حصہ

اپنے حق کی لڑائی عدالت اور قانون ساز اداروں میں ہی لڑنا بہتر ہوگا

0

عبیداللّٰہ ناصر

کرناٹک کے ایک چھوٹے سے شہر اڈوپی میں شر انگیزی کے طور پر حجاب کو لے کر کھڑے کیے گئے تنازع کی گونج پورے ملک میں پھیل گئی۔راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں کانگریس اور دیگر مخالف پارٹیوں نے معاملہ اٹھایا۔ کرناٹک ہائی کورٹ سے معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔تاک میں بیٹھے پاکستان کے وزیر خارجہ محمود قصوری نے بیان جاری کیا۔اس کی مذمت اویسی صاحب اور دیگر ہندوستانی لیڈروں نے بھی کی اور اسے ہمارا اندرونی معا ملہ کہہ کر ان سے اس میں ٹانگ نہ اڑانے کی آگاہی دی لیکن دنیا میں حقوق انسانی کی جن تنظیموں نے اس تنازع پر تشویش ظاہر کی ہے کیا انہیں بھی ہم پاکستان کی طرح اپنے کام سے کام رکھو کہہ سکتے ہیں؟ نہیں،کیونکہ حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں اب کسی بھی ملک کا اندرونی مسئلہ نہیں رہ گئی ہیں، خاص کر ایسی حالت میں جب حکومت خاموش تماشائی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں اس شر انگیزی، اس سازش کا حصہ ہو۔اگر ایسا نہ ہوتا تو حجاب جو اس سے پہلے مسئلہ نہیں تھا اچانک مسئلہ کیوں بنا دیا گیا؟ حکمراں جماعت سے وابستہ طلبا کی تنظیم اس تنازع میں کیوں کودی؟ حکمراں جماعت سے ہی وابستہ مذکورہ کالج کی انتظامیہ جس نے پہلے کبھی اعتراض نہیں کیا تھا، اسے حجاب سے اچانک الرجی کیوں ہوگئی ؟ یہاں یہ فرق سمجھنا ضروری ہے کہ ان مسلم بچیوں نے اسکول کی یونیفارم پہننے سے تو انکار نہیں کیا ہے نہ ہی برقع پہن کر کالج میں داخل ہونے پر بضد ہیں، وہ صرف اپنا سر ڈھکنے کی ہی آزادی تو مانگ رہی ہیں اور یہ ان کا بنیادی حق ہے جو انہیں آئین ہند کی طرف سے ملا ہوا ہے۔ اس کے جواب میں حکمراں جماعت سے وابستہ طلبا کا بھگوا شال اوڑھ کر کالج میں آنا محض شرارت اور ہٹ دھرمی ہے اور انہیں حکومت و انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان کے حوصلہ کتنے بلند ہیں، اس کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ کالج میں لگا قومی جھنڈا ترنگا اتار کر بھگوا جھنڈا لہرا دیتے ہیں، پولیس خاموش تماشائی بنی کھڑی رہتی ہے، بعد میں کانگریس کی طلبا شاخ این ایس یو آئی کے لڑکوں نے وہ بھگوا جھنڈا اتار کر ترنگا پھر لہرا دیا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کچھ شر پسند طلبا کو اس معاملہ میں حراست میں بھی لیا گیا ہے لیکن جب انہیں سرکار کی پشت پناہی حاصل ہے تو جلد ہی ان کی نہ صرف ضمانت ہو جائے گی بلکہ کچھ دنوں بعد کیس بھی ختم ہوجائے گا۔
معاملہ میں ٹرننگ پوائنٹ تب آیا جب ایک مسلم لڑکی مسکان خان برقعہ میں کالج پہنچتی ہے۔ اپنی اسکوٹی پارکنگ میں کھڑی کر کے جب وہ اپنی کلاس کی طرف جا رہی ہوتی ہے تو بھگوا گمچھا ڈالے درجنوں لڑکے اسے گھیر کر جے شری رام کے نعرے لگانے لگتے ہیں جواب میں وہ لڑکی کسی طرح کے ڈر، خوف اور گھبراہٹ کا اظہار کیے بغیر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتی ہے۔اچھا اور خوبصورت منظر یہ تھا کہ کالج کے پرنسپل اور دیگر اساتذہ اس بچی کے تحفظ میں آگے آ جاتے ہیں، بعد میں اس لڑکی نے بتایا کہ نہ صرف اس کے ٹیچرس بلکہ ساتھی طلبا بھی اس کی حمایت کرتے ہیں اور تحفظ کا پورا یقین دلاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پولیس انتظامیہ نے بھی اس بچی کو پورا تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے مگر راتوں رات یہ بچی دنیا میں مزاحمت(ریززٹنس) کی مشعل بن کر مشہور ہو گئی ہے جس کی ہمت کی دنیا تعریف کر رہی ہے اور وہ شرپسند طلبا دنیا بھر میں مذمت ہی نہیں بزدلی کا نمونہ بن گئے ہیں۔ بعد میں ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں شہر سے باہر یہ طلبا اپنی بھگوا شال اور پگڑی اتار کر جمع کرتے ہوئے دیکھ جا سکتے ہیں ،کچھ کھوجی اخبار نویسوں نے گجرات کی اس دکان کا بھی پتہ حاصل کرلیا تھا جہاں سے پانچ لاکھ روپے میں یہ بھگوا شال اور پگڑیاں خریدی گئی تھیں۔ ان سب باتوں سے صاف ظاہر ہے کہ یہ تنازع جان بوجھ کر ایک گہری سازش کے تحت کھڑا کیا گیا تھا جس کا مقصد صرف کرناٹک میں ہی نہیں بلکہ پانچ ریاستوں میں ہورہے اسمبلی الیکشن خاص کر اترپردیش میں سیاسی فائدہ اٹھانا تھا کیونکہ اترپردیش میں بی جے پی کی حالت سب سے زیادہ خستہ ہے اور تمام تر ہتھکنڈوں اور بے شرمی سے فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کے باوجود بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے ۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاست ایک طرف سے ہی نہیں ہو رہی ہے، اس علاقہ میں بی جے پی ہی نہیں، پاپولر فرنٹ آف انڈیا بھی پوری طور سے سرگرم ہے۔ تنازع کا مرکز بنا کالج بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی کا ہے۔ ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ اچانک حجاب پر پابندی کیوں لگائی؟ ادھر حجاب کی حمایت اور مخالفت میں دونوں سیاسی پارٹیاں خاص کر ان کی طلبا شاخ ا کھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد( اے بی وی پی ) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا(ایس ڈی پی آئی)کود پڑیں اور جو تنازع کالج انتظامیہ اور مذکورہ مسلم طالبات کے سرپرستوں کے درمیان افہام و تفہیم سے طے ہو سکتا تھا وہ نہ صرف سڑکوں، عدالتوں، ایوان، قانون ساز اور عالمی سطح پر پہنچ گیا اور جو بچے کالج میں آپس میں نہ صرف مل بیٹھ کر پڑھتے تھے بلکہ کینٹین میں چائے پیتے ہوئے، لان میں ٹہلتے، مشترکہ شرارتیں کرتے، فلم وغیرہ دیکھنے جاتے، پکنک پر جاتے تھے وہ سب مذہبی خانوں میں بانٹ دیے گئے۔ سیاسی فائدہ کے لیے کیسا معاشرہ اور کیسا ملک بنایا جا رہا ہے، یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ دلوں میں نفرت اور جذباتی ہم آہنگی کو ختم کر کے کوئی خاندان نہیں چل سکتا ملک کی تو بات ہی چھوڑئیے۔
اطلاعات کے مطابق اترپردیش کے فرقہ وارانہ طور سے حساس علی گڑھ اور مہاراشٹر کے بلڈانہ اور دیگر شہروں میں حجاب کے حق میں کچھ مسلم تنظیموں نے مظاہرے کیے، اس احمقانہ روش، سیاسی بے بصیرتی اور آر ایس ایس کی پچ پر کھیلنے کو کیا سمجھیں محض بیوقوفی، نہیں یہ گہری سازش ہے۔ معاملہ کو ملک گیر سطح پر کیوں اچھالا جا رہا ہے، اس سے کسے فائدہ ہو گا؟ کیا ہم اتنی معمولی بات نہیں سمجھتے۔ ایسے طالع آزماؤں کو سمجھنے اور ان کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔یہ ’چڑھ جا بیٹا سولی پر بھلا کریں گے رام‘ ٹائپ کے خود غرض نیتا قوم کو کھائی میں دھکیل رہے ہیں اور خود عیش کرتے ہیں۔ اپنے آئینی حق کی لڑائی عدالت اور قانون ساز اداروں کے اندر ہی لڑیں اور اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کریں نہ کہ سڑکوں پر معاملہ لا کر ان کی سازشوں کو کامیاب کریں۔ اس بچی مسکان کے معاملہ میں پورا ملک اس کے ساتھ کھڑا ہوا ہے، یہاں تک کہ فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں کو بھی اسے غلط کہنا پڑا۔ اس ہمدردی اور اپنائیت کو بچانے کی ضرورت ہے نہ کہ کھوکھلے، جذباتی نعروں اور احتجاج سے ان انصاف پسند عناصر کو کمزور کرنے کی۔
سڑک سے ہوتے ہوئے یہ معاملہ عدالت پہنچ گیا اور جیسا کہ عام طور سے ایسے معاملات میں ہوتا رہا ہے، انصاف ملنا تو درکنار انصاف کے ساتھ مذاق کردیا گیا، کرناٹک ہائی کورٹ نے اس معمولی سے معاملہ میں جس کی قانونی اور آئینی حیثیت سے ایک عام آدمی بھی واقف ہے، کوئی فیصلہ دینے کے بجائے معاملہ کو بڑی بنچ کے ہی حوالہ ہی نہیں کردیا بلکہ الٹے یہ حکم بھی جاری کر دیا کہ مقدمہ کا فیصلہ آنے تک کسی بھی قسم کا مذہبی لباس پہن کر طلبا کالج نہ آئیں۔ اب یہ ایک نیا شوشہ کھڑا ہو گیا، کیا سکھ طلبا پگڑی اور کڑا پہن کر کالج نہ آئیں، کیا ہندو بچیاں ماتھے پر بندی نہ لگائیں اور جو شادی شدہ ہیں، وہ مانگ میں سندور نہ بھریں اور منگل سوتر نہ پہنیں کیا، برہمن ذات کے طلبا جنیو نہ پہنیں؟ یا یہ پابندی صرف مسلم بچیوں کے حجاب پر ہی نافذ ہوگی؟ اور اگر ہاں تو آئین ہند نے برابری کا جو حق دیا ہے وہ کہاں گیا؟ ادھر مدراس ہائی کورٹ میں شاید ایسے ہی کسی معاملہ میں فاضل جج صاحب سے سنگھیوں کا وہ گھسا پٹا سوال کھڑا کر دیا کہ ملک پہلے یا مذہب؟ مگر آج تک کوئی سنگھی یہ نہیں بتا پایا کہ ملک اور مذہب میں ٹکراؤ کہاں ہے۔ فاضل جج صاحب ہی بتا دیں تو سماج کی بڑی خدمت ہوگی۔اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور جب تک حتمی فیصلہ نہیں آجاتا تب تک کرناٹک ہائی کورٹ کا وہ حکم ہی نافذ رہے گا کہ کوئی طالب علم مذہبی لباس میں کالج نہ آئے، اس کا عملی اثر صرف مسلم بچیوں کے حجاب پر پڑے گا کیوں کہ اس کی ضد میں جو طلبا بھگوا شال اوڑھ کر آئے تھے وہ محض شرارت تھی، ان کے لباس کا حصہ نہیں۔ ان بچیوں کے سالانہ امتحان سر پر ہیں، ایسے میں انہیں عدالت نے ایک دھرم سنکٹ میں ڈال دیا ہے کہ وہ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لیے اپنا حجاب ترک کریں یا اپنا تعلیمی سال برباد کریں۔
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS