جی-20 وزراء خارجہ اجلاس میں گلوبل وارمنگ کی بابت تشویش

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہم سب اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اگر گلوبل وارمنگ یعنی درجۂ حرارت میں شدید اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی پر قابو نہیں پایا گیا تو کچھ ممالک کا وجود بھی خطرہ میں پڑ سکتا ہے جیسے مالدیپ اور دیگر جزائر بحرالکاہل ۔ جی-20ممالک ہوں، کواڈ ہو یا دیگر کوئی بھی علاقائی یا عالمی فورم، ہر فورم پر گلوبل وارمنگ کی بابت تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، تجاویزبھی منظور کی جاتی رہی ہیں، فیصلے بھی لیے جاتے رہے ہیںاور بار بار یہ اعادہ کیا جاتا ہے کہ درجۂ حرارت 1.5°C سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے اور اخراج (emissions) 7.6فیصدسے زیادہ نہ ہو۔اس کے علاوہ ہر فورم پرصنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاتی ہے کہ اول الذکر کی صنعتوں سے جو اخراج ہو رہا ہے، اس کا سب سے زیادہ منفی اثر ترقی پذیر و کم ترقی یافتہ ممالک پر پڑتا ہے۔ حال ہی میں ہندوستان میں منعقدجی-20 وزراء خارجہ کے اجلاس میں بھی یہ مسئلہ زیر غور آیا۔ یہ بات دوسری ہے کہ اس میں مختلف امور کی بابت حتمی متفقہ فیصلہ نہیںلیا جا سکالیکن گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کی بات سے تو سب ہی متفق تھے۔ویسے بھی یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں دو رائے ہوہی نہیں سکتیں۔ ہاں! عمل درآمدگی کے معاملہ میں سنجیدگی کی بابت سوالات ضرور اٹھتے رہے ہیں۔
اس اجلاس میں پیرس معاہدہ کو ایمانداری سے عملی جامہ پہنانے کی بھی بات ہوئی۔پیرس کانفرنس ،جو COP 21 کے نام سے موسوم ہے، میں جو معاہدہ ہوا تھا، اس میں بھی عالمی درجۂ حرارت کو 2سینٹی گریڈ سے نیچے رکھنے کا اعادہ کیا گیا تھا اور مستقبل میں اسے 1.5سینٹی گریڈ تک لانے کی بات کہی گئی تھی۔ اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ کی روک تھام کے لیے غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے اور متعلقہ امور کی بابت شفافیت برتنے کی بھی بات کی گئی تھی ۔
2019میں اقوام متحدہ کی اخراجات سے متعلق رپورٹ میں بھی تمام ممالک کو یہ مشورہ دیا گیاتھا کہ وہ2030تک درجۂ حرارت کو 1.5°C سے آگے نہ بڑھنے دیں اور اخراج(emissions) 7.6فیصد سے زیادہ نہ ہوں۔ اس غرض کو پورا کرنے کے لیے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ تمام ممالک کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ہر سال اخراج کو 3.3فیصد کم کریں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ ترقی یافتہ ممالک غیرترقی یافتہ ممالک کی جانب ہونے والے صنعتی اخراج میں بھی کمی لائیں تا کہ ان کے ساتھ کسی طرح کی ماحولیاتی ناانصافی نہ ہولیکن صورت حال لگ بھگ جوں کی توں ہے۔اس کا اندازہ عالمی موسمیاتی تنظیم کی 19مئی 2022 کو شائع ہونے والی رپور ٹ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میںیہ انکشاف کیا گیا تھا کہ گزشتہ سات سالوں میں موسم اس قدر گرم رہا اور گرین ہائوس گیسز وغیرہ کا اخراج اتنا زیادہ ہوا، جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا تھاجس کے سبب دنیا کو شدید گرمی کی مصیبت جھیلنی پڑی او ر گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات مختلف شکل میں مرتب ہوتے رہے۔ اس کا اثر نہ صرف ماحولیات پر پڑا بلکہ لوگوں کی صحت پر بھی برا اثر پڑا اور دنیا کو بہت سی شدید آفات کا سامنابھی کرناپڑا اور ان پر قابو پانے کے لیے قانون بنانا پڑا ۔ خود ہمارے ملک میں بھی حکومت ہندنے شدید آفات سے نمٹنے کے لیےDisaster Management Act,2005 بنایا ۔اس ایکٹ میں disasterکی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے: ’ڈیزاسٹر سے مراد ہے بپتا، تباہی، ناخوشگوار واقعہ، سانحہ، آفات سماوی یا کسی بھی علاقے میں ایسا شدید واقعہ جو قدرتی نوعیت کا ہو یا انسانوں کی اپنی غلطی کا یا کسی حادثہ یا غفلت کا شاخسانہ ہو جس کے باعث نہ صرف جان ومال کا نقصان ہوا ہو بلکہ ماحولیات پر بھی منفی اثر پڑا ہو اور اس کی نوعیت یا دائرۂ اثر اس قدر شدید ووسیع ہو کہ وہ جس علاقے میں رونما ہوا ہو وہاں کے مکین اس کا مقابلہ نہ کرسکیںیعنی اس کی مار نہ جھیل سکیں‘۔ترقی یافتہ ممالک نے ان دستاویزات کے احترام کی بات تو کی لیکن عمل درآمدگی کے معاملے میں بخل سے کام لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہت سی نئی نئی آفات شامل ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ خشک سالی،کسانوں کی خودکشی،سیلاب، شدید برف باری اور تودے گرنا، جیسی آفات سامنے آتی رہتی ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تحفظ کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر ہم ماحول کو آلودہ نہ ہونے دیں اور اسے اپنی روز مرہ زندگی کا جز بنا لیں ،ماحولیاتی تحفظ سے متعلق اقوام متحدہ کی دستاویزات اور ماحولیات کے تحفظ سے متعلق اپنے ملک کے قانون پر ایمانداری سے عمل کریں، پلاسٹک کے تھیلوں اور اس طرح کی ممنوعہ اشیا سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر لیں، ترقی یافتہ صنعتی طاقتیں کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں جس سے دوسرے ممالک کے، خاص کر چھوٹے چھوٹے کمزور ممالک کے ماحو ل پر منفی اثر نہ پڑے تو یہ دنیا ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے کافی حد تک نجا ت حاصل کرسکتی ہے۔ 1972 کے اسٹاک ہوم اعلامیہ میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ ہر شخص کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے ایک خوش حال اور پروقار زندگی گزارنے کے لیے آزادی، مساوات اور مناسب ماحول ملے مگر اس کے ساتھ اس کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا عہد کرے کہ وہ ماحول کے تحفظ اور اس کی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داری بھی صحیح طریقے سے نبھائے گا اور اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کے نسلی امتیاز، بھیدبھاؤ اور ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کا راستہ نہیں اپنایا جائے گا،اس دنیا میں موجود تمام قدرتی وسائل بشمول ہوا، پانی، زمین اور پھول پودوں کو ذمہ دارانہ منصوبہ بندی وانتظام کے ذریعہ نہ صرف موجودہ بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے تحفظ فراہم کرایا جائے،تمام ممالک کی ماحولیات سے متعلق پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ جس سے ترقی پذیر ممالک کی موجودہ یا مستقبل میں ترقی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔
گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کے لیے تمام ممالک کو ایمانداری سے یہ کوشش کرنی چاہیے کہ مناسب حدود سے آگے ماحول میں ایسے زہریلے مادے اور حرارت خواہ اخراجات کی شکل میں یا کسی دیگر طریقہ سے شامل نہ ہونے پائیں جس سے کہ کسی بھی ملک کے ماحول کو نقصان پہنچے اور اپنی صنعتی سرگرمیوں اور ماحولیات سے متعلق پالیسیاں اس طرح بنانی چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے دائرے کے اندر رہیں اور اس سے کسی دیگر ملک کے ماحول پر برا اثر نہ پڑے اور ہمیں شدید درجۂ حرارت کی مار نہ جھیلنی پڑے ۔یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ امریکہ کی سائنٹفک و انضباطی ایجنسیNational Oceanic and Atmospheric Administration (NOAA) کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں7 جنوری2023 کولوگوں کو 174 سال بعدشدید ترین گرم دن کی مار جھیلنی پڑی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS