دعاء و مناجات کی شب، رنگوں کا تہوار اور عالمی یوم خواتین

0
دعاء و مناجات کی شب، رنگوں کا تہوار اور عالمی یوم خواتین

عبدالماجد نظامی

اس سال8مارچ کا دن بہت خاص تھا کیونکہ شبِ برات کا تقدس، رنگوں کے تہوار ہولی کی رنگ برنگی خوشیاں اور عالمی یوم خواتین سب ایک ساتھ ہی جمع ہوگیا تھا۔ جہاں ایک طرف دنیا بھر میں مسلمان مناجات اور دعاؤں کے ذریعہ تقرب الی اللہ کا راستہ ڈھونڈ رہے تھے اور اپنے رب سے سرگوشی کے انداز میں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بہتر زندگی گزارنے اور لائق صد افتخار سماج کی تشکیل کے لیے کوشاں رہنے کا عہد کر رہے تھے وہیں دوسری طرف نفرت اور سماجی تقسیم کے ماحول کو برطرف کرتے ہوئے ہولی کے رنگوں میں رنگے ہندوستانی دنیا کو یہ پیغام دینے میں مصروف تھے کہ اس ملک کو ایک خاص رنگ میں رنگنے کی خواہ کتنی بھی کوششیں کی جائیں لیکن یہ حقیقت کبھی مٹ نہیں سکتی کہ یہ ملک اور سماج دراصل کئی رنگوں کی آمیزش سے تیار ہوا ہے اور رنگوں کا یہی تنوع ہی ہندوستانی سماج کو خوبصورت، دیدہ زیب اور قابل رشک بناتا ہے۔ ہولی کے موقع پر ہندوستانی عملی طور پر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ رنگوں کو مذہب و ملت اور ذات و علاقہ کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی ہندوستانی معاشرہ اس بات کو قبول کرنے کو تیار ہے کہ اس کی چادر پر ایک ہی رنگ کی لکیر کھینچ دی جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو ایک عجیب قسم کی تیرگی پھیل جائے گی۔ زندگی بے رنگ اور انسانی تعلقات بد مزہ بن جائیں گے۔ یہ رنگ برنگ سماجی خطوط ہی ہندوستان کے معاشرہ کو دنیا کے دیگر ان تمام معاشروں سے الگ اور ممتاز بناتے ہیں جہاں تہذیبی، لسانی اور معاشرتی تکثیریت کا فقدان ہے اور جہاں کے لوگ انسانی دنیا کے ثقافتی تنوع کے بارے میں باخبر ہونے کے باوجود تکثیریت پر مبنی سماج میں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔ اسی لیے جب گلوبلائزیشن کی وجہ سے کبھی انہیں اپنے ملک و معاشرہ میں الگ الگ زبانوں، تہذیبوں اور ثقافتوں کے حامل انسانوں سے سابقہ پڑتا ہے تو وہ بالکل سمجھ نہیں پاتے کہ ان کے ساتھ کیسے برتاؤ کریں اور عموماً وہ قومیں بھی جو ہمیشہ دنیا کو رواداری اور محبت کا سبق پڑھاتی رہی ہیں جب عملی زندگی میں انہیں کسی مختلف ثقافت سے دوچار ہونا پڑا تو اچانک ان کا ردعمل وحشیانہ ہوگیا۔ ایسے خطۂ ارضی میں بطور خاص مغربی یوروپ کے وہ ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے ایشیا سے افریقہ تک اپنے سامراج کا جال پھیلایا اور ان ممالک کی ثروتوں سے ہی صرف لطف اندوز نہیں ہوئے بلکہ انہیں فقر و ذلت کے غار میں بھی دھکیل دیا تھا جس کی تفصیل ششی تھرور جیسے مصنف نے اپنی کتاب An Era of Darkness میں بیان کی ہے اور بطور خاص برطانیہ عظمیٰ کی ان پالیسیوں سے پردہ اٹھایا ہے جن کے تحت ملک ہندوستان کو ہر محاذ پر بڑی قیمت چکانی پڑی تھی۔ مغربی معاشرہ کا غیر مہذب انداز اور برتاؤ اس وقت خاص طور سے جگ ظاہر ہوگیا تھا جب شام و عراق سے ستم رسیدہ لوگ یوروپ کا رخ کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ جس طرح برتاؤ روا رکھا گیا تھا وہ کسی بھی مہذب معاشرہ کو شرمسار کر دینے کے لیے کافی تھا۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ مغربی یوروپ کے ممالک نے کبھی اس کی توقع نہیں کی تھی کہ ان کا ایسے لوگوں سے سابقہ پڑے گا یا کم سے کم انہیں اپنی سرحدوں پر یا اپنے شہروں میں دیکھنے کو ملے گا جن کے بارے میں وہ صرف دور سے باتیں کرنے کے عادی ہوچکے تھے اور کسی حد تک خود کو دنیا کا امام سمجھ کر ’غیر مہذب‘ قوموں کو مہذب بنانے کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی تھی۔ فکری طور پر ایسے معاشروں کے دانشوران گرچہ تہذیبی و لسانی و نسلی تنوع کی ضرورت و اہمیت پر باتیں کرتے رہتے تھے لیکن عملی طور پر ان باتوں کو برتنے کا نہ تو ان کے پاس کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی ذہنی طور پر وہ اس کے لیے تیار تھے اور اسی لیے وہ منفی نتیجہ نکلا جس کا نظارہ چشم عالم نے کیا۔ اس کے برعکس ہندوستانی معاشرہ تاریخی طور پر ہمیشہ سے ہی تکثیریت پر مبنی معاشرہ رہا ہے۔ یہاں دنیا کے کئی بڑے مذاہب پیدا ہوئے، بے شمار زبانوں نے ایک دوسرے سے جدا رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے اثرات اس طرح قبول کیے جیسے کوئی فطری عمل ہو اور اس کے باوجود اپنا وجود نہیں کھویا۔ گویا ہندوستانی معاشرہ نے کبھی بھی اس بات سے خوف محسوس نہیں کیا کہ یہاں الگ الگ مذاہب، طرز حیات، روز مرہ کی زندگی کے متنوع خیالات و افکار اور فلسفے کیوں وجود میں آ رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ممکن ہو سکا کیونکہ ہندوستانیوں کا مزاج ہمیشہ سے ایک دوسرے کو قبول کرنے بلکہ ایک دوسرے میں ضم ہوجانے کا رہا ہے۔ ہولی کا تہوار بھی اسی قدیم ہندوستانی مزاج کا عکس پیش کرتا ہے جس میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ یہاں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر ضم ہو چکے ہیں کہ انہیں الگ کرنے یا ان میں نفرت و تقسیم کی تخم ریزی کا فطری نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہندوستانی معاشرہ اپنی حیثیت کھو دے گا اور اس قدر بدل جائے گا کہ اس کو پہچان پانا بھی مشکل ہوگا۔ گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں ایک خاص سیاسی نظریہ نے اس تنوع کو ختم کرنے کی بڑی کوششیں کی ہیں اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہندوستانی عوام کی اکثریت نے اس فلسفہ اور نظریہ کو قبول نہیں کیا ہے کیونکہ انہیں اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ ایک خاص رنگ میں رنگنے کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہولی کے رنگوں کی معنویت بھی تبھی تک برقرار رہے گی جب تک اس ملک کے تمام تہذیبی، ثقافتی اور لسانی تنوع کی حفاظت کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے عوام نے کبھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کے ذریعہ تو کبھی کسان آندولن اور ’پٹھان‘ فلم کو کامیاب بناکر یہ پیغام دیا ہے کہ انہیں تقسیم کرنے کی ہر کوشش ناکام رہے گی۔ لیکن8مارچ کی ایک دوسری اہمیت بھی ہے جس کی حیثیت عالمی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس دن کو ’عالمی یومِ خواتین‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ سماج کو جوڑنے کا کام تب تک ادھورا رہے گا جب تک بچیوں اور خواتین کو ان کے تمام جائز حقوق نہیں مل جاتے۔ جب تک کسی بہن بیٹی کو پردہ اور چادر عصمت کے ساتھ تعلیم و ترقی کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، شکمِ مادر میں پل رہی بچیوں کو لڑکوں کی طرح قبول نہیں کیا جاتا اور گھر کے کچن یا دیگر رشتوں کی ڈور کو ان کے لیے پھانسی میں بدلنے سے روکا نہیں جاتا تب تک ایک کامیاب اور مہذب معاشرہ بننے کا ہمارا دعویٰ ادھورا رہے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ نہ صرف ہمارے ملک و معاشرہ کی تہذیبی و لسانی تکثیریت کی حفاظت کی جائے گی بلکہ بچیوں کو بھی ان کے وہ سارے حقوق فراہم کیے جائیں گے جن کی وہ بجا طور پر حق دار ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کر پاتے ہیں تو ہماری دعائیں اور مناجات رب کائنات کے حضور مردود قرار پائیں گی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS