بچوں کی خودکشی

0

بچوں کی خودکشی کے حوالے سے آنے والی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی بی )کی ہوش ربا رپورٹ نے ہر صاحب دل کے تار کو جھنجھوڑ دیا ہے اور یہ سوال گردش کرنے لگا ہے کہ کیا ہم آزادی کے 75 سال بعد بھی اس قابل نہیں ہوسکے ہیں کہ اپنے بچوں کی پرورش و پرداخت کی مقدس ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ان کے جذبات و احساسات کو سمجھیں اور انہیں قدرت کی عطاکردہ زندگی کی حرمت و قدر سے آگاہ کرپائیں۔این سی بی کے مطابق 2017 سے 2019کے دو برسوں کے دوران14سے18سال تک کی عمر کے 24568بچوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر خودکشی کی۔امتحانات اور ’محبت ‘ کے معاملات میں ناکام ہونے کی وجہ سے خودکشی کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
یہ اعدادو شمار بتارہے ہیں کہ 75برسوں کی مسلسل جدو جہد کے باوجود ہم اپنی نئی نسل کو خوف سے پاک نظام تعلیم دینے میں ناکام رہے ہیں اور نہ ہی انہیں ایسا معاشرتی ماحول فراہم کرسکے ہیں جن میں ان کے جذبات و احساسات کو سمجھاجائے اورا ن کے اخلاقی وجود کے جوہر کی آبیاری کی جائے۔ ہم اپنی نوعمر نسل کو دھوکہ، فریب، مایوسی اور ایک ایسے کھوکھلے معاشرہ کے علاوہ کچھ نہیں دے پائے ہیں جس کے ظاہر و باطن کا فرق زہرہلاہل سے کم نہیں ہے۔
این سی بی کی فراہم کردہ تفصیلات کا بہ غور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اتنی بھاری تعداد میں بچوں کی خودکشی کی وجوہات میں امتحانات اور محبت میں ان کی ناکامی جو کہ درحقیقت ہماری ناکامی ہے کے علاوہ بھی ہماری اپنی ایسی کوتاہیاں اور خامیاں ہیں جو نوعمر نسل کو بربادی کے دہانے تک لے جارہی ہیں۔ان وجوہات میں دردناک بیماریاں، بچوں کا جسمانی استحصال، نشہ، قریبی عزیز کی موت کے بعد کسی کفیل کا نہ ہونا، سماجی حیثیت میں نابرابری، غربت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ ناپسندیدہ حمل وغیرہ جیسے معاملات ہیں۔ خودکشی کے ان واقعات کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں 13325لڑکیاں بھی خودکشی کرنے والوں میں شامل ہیں۔اس حقیقت کو ایک سنگین خطرہ کے طور دیکھاجاناچاہیے کہ 2017 میں8029 نوعمر لڑکیوں نے موت کو گلے لگایا، 2018 میں ان کی تعداد بڑھ کر 8162 ہوگئی اور 2019 میں 8377لڑکیوں نے خود کو موت کے حوالے کردیا۔ یعنی گزرتے وقت کے ساتھ لڑکیوں میں خودکشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ حکومتی سطح پراس کے تدارک کی کوشش نہیں کی جارہی ہے اور اگر کہیں یہ کوشش ہوبھی رہی ہے تو بڑھتے اعداد و شمار بتارہے ہیں کہ ناکامی ہی مقدر ہے۔
بچوں کی خودکشی ان کے والدین کیلئے صدمہ جانکاہ تو ہے ہی یہ ملک کیلئے بھی ایک ایسا نقصان ہے جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا ہے۔ خودکشی کرنے والا یہ وہ طبقہ ہے جو اگر زندہ رہتا تو کچھ عرصہ کے بعد ملک و معاشرہ کا قیمتی اثاثہ بن جاتا۔ لیکن معاشرہ کاکھوکھلاپن اور بچوں کی ذہنی ساخت کے مطابق ان کی تربیت میں ناکامی نے یہ دن دکھلایا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب چھوٹے خاندان کی افادیت کا ڈنکا بجایا جارہا ہے اور قانون سازی کے ذریعہ پابند کیے جانے کی غیر فطری کوشش ہورہی ہے، نوعمر بچوں کی خودکشی سے یہ ظاہر ہورہاہے کہ ابھی ہمارے معاشرتی نظام میں ایسی خامیاں اور کمیاں ہیں جنہیں دور کیے جانے کی اشدضرورت ہے۔چھوٹی عمر میں اس طرح سے موت کو گلے لگانا ہماری حکومتی پالیسیاں مرتب کرنے اور پروگرام بنانے والوں کیلئے فکر و تشویش کا سبب ہوناچاہیے۔ اس پر بھی غور کیاجاناچاہیے کہ ہم اپنی نوعمر نسل کو کیا دے رہے ہیں۔یہ بھی سوچاجانا چاہیے کہ کیا ہمارا تعلیمی نظام نئی نسل میں علم کی جوت جگارہاہے یا پھر انہیں صرف ڈگریاں حاصل کرنے اور زیادہ سے زیادہ نمبر لانے پر مجبور کرتا ہے۔ بچوں کے ذہن پر طاری ہوجانے والا امتحان کا بھیانک خوف ان کی آرزوئوں اور امنگوں پر حاوی ہوجاتا ہے اور وہ اس خوف سے نجات پانے کیلئے اپنی زندگی ہی ختم کرلیتے ہیں۔
محبت میںناکامی پر ہونے والے خودکشی کے واقعات بھی یہ تقاضاکررہے ہیں کہ ہم اپنے معاشرتی اقدار کا جائزہ لیں اور ظاہر و باطن کو ایک کریں۔ ایک جانب مغرب کی نقل اور جدیدبننے کے بڑھتے رجحان ہیں تو دوسری جانب گھروں میں گھٹن ہے، ہمارے بچے ان دوپاٹوں میں پس کر رہ جاتے ہیں اور جن کا صبر جواب دے جاتا ہے وہ موت کو گلے لگالیتے ہیں۔
این سی بی کی رپورٹ صرف ایک سرکاری دستاویز ہی نہیں بلکہ ہمارے معاشرہ کی حقیقت پسندانہ عکاسی ہے۔اگر ہم اپنے بچوں کو قبل از وقت موت سے بچانا اور انہیں ملک و معاشرہ کا قیمتی اثاثہ بناناچاہتے ہیںتو ضرورت ہے کہ ہم ایسا تعلیمی نظام وضع کریں جو بچوں کے ذہن و دل پر امتحان کا خوف طاری کرنے کے بجائے انہیں حصول علم کی طرف مائل رکھے اور تعلیم بچوں کو بوجھ محسوس نہ ہو۔اس کے ساتھ ہی گھریلو اور معاشرتی زندگی میں توازن کا جائزہ لیاجانا بھی ضروری ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS